قاہرہ: مصر میں فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے پہلے مرحلے میں دارالحکومت قاہرہ میں واقع سرکاری میڈیا کی عمارت پر قبضہ کرکے براہ راست نشریات روک دی ہیں جب کہ عملہ کو باہر نکال دیا گیا ہے۔
مصرکے دارالحکومت میں صدرمرسی کے حامی ومخالفین ایک ایسے وقت میں فوجی بیان کا انتظارکررہے ہیں جب ملک کے پہلے جمہوری طورپرمنتخب صدرکودی گئی مہلت ختم ہو چکی ہے۔
مصری ٹیلی ویژن سے منسوب غیرمصدقہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ صدرمرسی کو ان کے گھرمیں نظربند کردیاگیاہے۔
مصری صدرمحمد مرسی کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاہے کہ ایک جماعت کی حمایت کرنا ان کی غلطی تھی تاہم کوئی ایساکام نہیں ہونا چاہئے جو ملک کوپیچھے کی جانب لے جائے۔
مرسی کااپنے بیان میں یہ بھی کہناہے کہ ملکی معاملات چلانے اورنئے انتخابات کروانے کے لئے ایسا عبوری انتظام کیاجائے جوسب کے لئے قابل قبول ہو۔
مصری صدرکے مخالفین کاکہناہے کہ مرسی کی جانب سے متفقہ عبوری حکومت کے قیام کی خواہش تاخیرسے کی گئی ہے،یہ وقت خواہشات کے اظہارکے بجائے جواب دہی کرنے کاہے۔
قاہرہ میں سرکاری ٹیلی ویژن کے حکام نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹرکی اس خبرکوغلط قراردیاہے جس میں ٹی وی دفاترسے ملازمین کو نکال دینے کی اطلاع دی گئی تھی۔
دی نیوز ٹرائب کو مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی تازہ اطلاعات کے مطابق فوج کی جانب سے دیے جانے والا الٹی میٹم ختم ہونے کے بعد آرمی چیف کی سربراہی میں فوج کا اہم اجلاس جاری ہے جس میں ملک کا موجودہ آئین معطل کرکے عبوری کونسل تشکیل دینے سے متعلق بظاہر پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
تحریراسکوائرکے ساتھ ایوان صدرکے باہرموجودمجمع بھی اس بات کا انتظارکررہاہے کہ صدرمرسی استعفی دیتے ہیں یافوج کسی انتہائی اقدام کی جانب بڑھتی ہے۔
مصری صدرکے مخالفین کا کہناہے کہ مرسی کی جانب سے اخوان المسلمون ہی کو اہمیت دئے جانے اورانقلاب کے مطالبات کونظراندازکرنااصل خرابی ہے۔
ایوان صدر کی جانب جانے والے تمام راستوں پر فوجی ٹینک کھڑے کردیے گئے ہیں اور جگہ جگہ رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں۔
موجودہ صورت حال کے پیش نظر مصر کے مرکزی بینک کی ہدایت پر تمام بینک نے اپنے برانچز بند کردیے ہیں۔
مصری عدالت نے صدر مرسی کے برطرف کردہ حسنی مبار ک دور کے پبلک پراسیکیوٹر کو دوبارہ اسی عہدے پر بحال کردیا ہے۔
ادھر اپوزیشن لیڈر محمد البرادعی نے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔
ملاقات میں البرادعی سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک عبوری سیٹ اپ تشکیل دے کر ریفرنڈم کرائیں جس میں لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ اسلام پسند صدر کو ملک کا سربراہ دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
یاد رہے کہ امریکا کے لیے قابل اعتماد فرد سمجھے جانے والے محمد البرادعی عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے دور میں متعدد ممالک کے ایٹمی پروگرامات رول بیک کرانے کے لیے خاصی پیش رفت کی تاہم ایران کے معاملے پر ناکامی کا شکار ہوئے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصر میں حالیہ مظاہروں کے روح رواں محمد البرادعی سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے بعد مصر کے حکمران بننے کے خواہشمند تھے اور اسرائیل کا پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے انہیں امریکا کی سرپرستی حاصل رہی تاہم ایک برس قبل ہونے والے انتخابات میں انہیں اخوان المسلمون سے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور البرادعی تیسرے نمبر پر رہے۔
دی نیوز ٹرائب کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ نے مصری فوج کے چیف کی طرف سے دی گئی ملاقات کی دعوت یکسر مسترد کر دی ہے۔
مصری حکمراں جماعت انصاف وجسٹس پارٹی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ آزادی سے زیادہ زندگی کی قیمت نہیں۔
مصری صدر کے ترجمان نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ محمد مرسی اپنی منتخب آئینی حکومت کو بچانے کے لیے ایک درخت کی طرح کھڑے رہنے سے جان دینا بہتر سمجھتے ہیں۔
قبل ازیں بدھ کو ہی مصری افواج کے سربراہ نے اپنے بیان میں اسلام پسندوں کی حکومت کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے تشبیہہ دے کر عوام کو ان سے نجات دلانے کے لیے اپنا خون تک دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بیان مسلح افواج کے سپریم کونسل جس کی سربراہی آرمی چیف عبدالفتاح السیسی کر رہے ہیں سے منسلک فیس بک کے ایک صفحے پر جاری کیا گیا ہے۔
’’آخری گھنٹے‘‘ کے عنوان سے جاری اس بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کے جنرل کمانڈر سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے زیادہ باعث عزت ہوگا کہ مصر کے عوام کو دہشت گردوں اور بے وقوفوں سے بچانے کیلئے زندگی قربان کر دی جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور غافل گروپوں کے خلاف، مصر اور اس کی عوام کے لیےاپنی خون کی قربانی دیں گے۔
مصر کے مشہور تحریر اسکوائر اور اس کے اطراف کی سڑکوں پر اس وقت بھی لاکھوں افراد جمع ہیں۔
اس سے پہلے مصر میں محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ایک نامعلوم شخص نے قاہرہ میں صدر مرسی کے حق میں نکالی جانے والی ریلی پر فائرنگ کردی تھی جس میں اب تک 41 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی گئی ہے واقعہ میں 200 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے تازہ بیان میں محمد مرسی کو فوج سے بات کرنے کا کرنے کا مشورہ دیا ہے جب کہ برطانوی وزیراعظم نے مصر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین پر امن رہیں۔
انہوں نے صدر مرسی پر زور دیا ہے کہ وہ مظاہرین کے تحفظات دور کریں۔