Lecturer Junaid Hafeez Sentenced To Death By Multan Court in Blasphemy Case
Posted By: Adil Zubair, December 21, 2019 | 02:14:36Lecturer Junaid Hafeez Sentenced To Death By Multan Court in Blasphemy Case
توہین مذہب: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت دینے کا حکم
پاکستان میں پنجاب کے جنوبی شہر ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے انھیں سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار سابق یونیورسٹی لیکچرار کو دیگر الزامات ثابت ہونے پر عمر قید اور دس سال قید کا بھی حکم سنایا ہے۔ جنید حفیظ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
صحافی محمد زبیر کے مطابق حکومتی پراسیکوٹر ضیا الرحمان چوہدری کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج کاشف قیوم نے سنیچر کو سنٹرل جیل ملتان میں فیصلہ سنایا جس میں جیند حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جیند حفیظ کی تینوں سزاؤں پر عملدرآمد ایک ساتھ شروع ہو گا۔ جس میں عمر قید اور قید کی سزا پوری ہونے پر پھانسی کی سزا دی جائے گی۔‘
12 دسمبر کو رات گئے تک جاری رہنے والی گذشتہ سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
ملزم کے وکلا اور استغاثہ کی جانب سے چوہدری ضیا الرحمان نے دلائل مکمل کیے تھے۔
یاد رہے اس مقدمے میں ملزم کے پہلے وکیل راشد رحمٰن کو مقدمہ کی پیروی کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا۔
ملزم کے وکیل کو 7 مئی 2014 کو چوک کچہری پر واقع چیمبر میں گولی ماری گئی تھی اور اس قتل کے واقعے میں اور بھی وکیل زخمی ہوئے تھے۔ جس کے بعد ملزم کا کیس لینے والے دوسرے وکیل پیروی سے دستبردار ہوگئے تھے۔
پیروی کرنے والے تیسرے وکیل کو بھی دوران سماعت دھمکیاں دی گئی تھیں۔
ملزم جنید کے خلاف 15 گواہوں کی شہادتیں اور زیر دفعہ 342 کے بیانات مکمل کیے گئے۔ مقدمے کے بقیہ 11 گواہوں کو غیر ضروری جان کر ترک کر دیا گیا۔
واضح رہے سابق یونیورسٹی لیکچرار جنید حفیظ پر سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی تبصرہ کرنے کا مقدمہ 13 مارچ 2013 میں درج کیا گیا تھا۔ سکیورٹی خدشات کے باعث اپریل 2014 کو کیس کی سماعت سینٹرل جیل میں کرنے کی ہدایات جاری ہوئی تھی۔
مقدمے کا آغاز سنہ 2014 میں ہوا تھا جبکہ استغاثہ نے اس میں تیرہ شہادتیں دی تھیں۔ جس میں یونیورسٹی کے دیگر استاد، طالب علم اور پولیس کی شہادتیں تھیں۔
جنید حفیظ کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ جیند حفیظ کے وکلا کے مطابق وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
انتہائی حساس حالات کی وجہ سے اس مقدمے کا ٹرائل ملتان سنٹرل جیل میں ہوا تھا اور فیصلہ بھی ملتان جیل نے سنایا گیا۔
اس سے قبل جیند حفیظ کے وکیل اسد جمال نے صحافی عباد الحق سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ 12 دسمبر کو ہونے والی کارروائی میں حتمی دلائل دیے جائیں گے اور دونوں فریق اپنا اپنا مؤقف عدالت کے روبرو پیش کریں گے۔
جنید حفیظ کے وکیل اسد جمال نے بتایا تھا کہ استغاثہ کے تمام گواہان کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں جبکہ جیند حیفظ بھی بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
ان کے مطابق استغاثہ کی جانب سے 26 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کروائے جانے تھے لیکن صرف 15 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو سکے۔
گذشتہ سات برس سے جاری توہین مذہب کے اس مقدمے کی شنوائی کرنے والے آدھ درجن سے زائد جج تبدیل ہو چکے ہیں جبکہ مقدمے کی پیروی کے دوران ہی وکیلِ صفائی راشد رحمان کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔
اسد جمال ایڈوکیٹ کے مطابق وہ اس مقدمے میں تیسرے وکیل ہیں کیونکہ ان کے بقول راشد رحمان کے بعد اس مقدمے کی پیروی کرنے والا دوسرا وکیل مقدمے سے دستبردار ہو گیا تھا۔
یاد رہےاپریل 2014 میں سکیورٹی خدشات کی بنا پر جنید حفیظ کے خلاف مقدمے میں ملتان سینٹرل جیل میں سماعت کے موقع پر ملزم کے وکیل راشد رحمان اور اللہ داد مقدے کی سماعت کے دوران جج کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
جب وہ ملزم کی بریت کے لیے دلائل دے رہے تو تین افراد نے جج کی موجودگی میں راشد رحمان ایڈوکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’آپ اگلی مرتبہ عدالت نہیں آ سکیں گے کیونکہ آپ اب مزید زندہ نہیں سکیں گے۔‘
ایڈوکیٹ رحمان نے جج کو توجہ دھمکی کی جانب دلائی تاہم اطلاعات کے مطابق جج صاحب نے مبینہ طور خاموشی اختیار کیے رکھی۔
اس کے اگلے ہی ماہ سات مئی 2014 کو انھیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ وکیل راشد رحمان کے قتل کے دو ماہ بعد 11 جولائی سنہ 2014 کو مقدمے کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج شہباز علی پراچہ کی غیر حاضری کی وجہ سے ملتوی ہو گئی تھی۔
جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے جنید کا مقدمہ لڑنے کے لیے آٹھ وکلا کی ٹیم تشکیل دی تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وکیل راشد رحمان کے قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار کا بھی اس واقعے کے چند ہفتے بعد تبادلہ کر دیا گیا تھا۔
بعض وکلا کے بقول اس تبادلے نے تحقیقات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
دسمبر 2014 میں جنید حفیظ کے وکیل شہباز گرمانی کے مطابق انھیں ہراساں کرنے کے لیے نہ صرف ان کے گھر کے قریب ہوائی فائرنگ کی گئی بلکہ انھیں دھمکی آمیر خط بھی موصول ہوا تھا۔
شہباز گرمانی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انھیں ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس میں انھیں کہا گیا تھا کہ ’ان کے ساتھ بھی راشد رحمان والا سلوک کیا جائے گا۔ اگر تم نے توہین رسالت کے ملزم جنید کی وکالت کی یا اس طرح کا کوئی بھی مقدمہ لڑا تو تمہارا سر قلم کر دیں گے۔‘
جنید حفیظ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں انگلش کے پروفیسر تھے۔
Source