Copyright Policy Privacy Policy Contact Us Instagram Facebook
Top Rated Posts ....
PM Shehbaz Sharif's tweet in reply to Donald Trump's thanks to Pakistan PM Shehbaz Sharif's tweet in reply to Donald Trump's thanks to Pakistan US President Donald Trump says US President Donald Trump says "thank you" to Pakistan Hamid Mir tells why Donald Trump thanked Pakistan Hamid Mir tells why Donald Trump thanked Pakistan Suspect in Abbey Gate Kabul airport bombing presented in US Court Suspect in Abbey Gate Kabul airport bombing presented in US Court Hassan Nisar's comments on Ukrainian President Zelensky's insult by Donald Trump Hassan Nisar's comments on Ukrainian President Zelensky's insult by Donald Trump Asad Qaiser's tweet on Kashif Abbasi and Habib Akram's disappearance from media Asad Qaiser's tweet on Kashif Abbasi and Habib Akram's disappearance from media

What Is Happening in Italy Due to Coronavirus - Eye Opening Report by BBC News




کورونا وائرس: کووِڈ 19 کس طرح اٹلی میں مرنے والوں کی بےتوقیری کر رہا ہے؟

جب آپ کا کوئی پیارا زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے تو اُس کو آخری الوداع کہنے کا موقع ملنا ہی آپ کے لیے سب کچھ ہوتا ہے۔ لیکن کورونا وائرس اٹلی کے شہریوں کو اِس اہم موقعے سے بھی محروم کر رہا ہے۔ یہ وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کو روایتی تدفین سے محروم کر رہا ہے اور لواحقین کے غم میں اضافہ کر رہا ہے۔ اٹلی کے شہر میلان میں تدفین کی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے سے منسلک اینڈریا کیریٹو کہتے ہیں کہ ’اِس وبا کی وجہ سے لوگ دو مرتبہ مرتے ہیں۔‘ ’پہلے یہ وبا آپ کو مرنے سے قبل ہی اپنے پیاروں سے دور کر کے تنہا کر دیتی ہے اور پھر یہ وبا آپ کو اپنے پیاروں کو رخصت کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ لوگ اِس صورتحال کو قبول نہیں کر پا رہے ہیں۔‘

تنہائی میں موت

اٹلی کے بہت سے شہری اس طرح ہلاک ہو رہے ہیں کہ وقتِ نزاع ان کے قریب نہ تو ان کا خاندان ہوتا ہے اور نہ ہی دوست احباب کورونا وائرس میں مبتلا اکثر مریض اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے دور تنہائی میں ہلاک ہو رہے ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہسپتالوں میں مریضوں سے ملاقات پر پابندی ہے۔ صحتِ عامہ کے حکام کا کہنا ہے ہلاک ہونے والوں سے یہ وائرس دوسروں کو نہیں لگ سکتا لیکن ہلاکت کے بعد یہ چند گھنٹوں تک کپڑوں پر زندہ رہ سکتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ لاشوں کو فوری طور پر حفاظتی مواد میں لپیٹ کر دفنا دیا جائے۔ اٹلی کے علاقے کریمونا میں تدفین کا کام کرنے والے ماسیمو مینکیسٹروپا کہتے ہیں کہ بہت سے لواحقین پوچھتے ہیں کیا وہ میت کا آخری دیدار کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ اِس کی اجازت نہیں ہے۔ مرنے والوں کو اب اُن کے پسندیدہ اور سب سے اچھے لباس میں نہیں دفنایا جا سکتا۔ اِس کے بجائے انھیں ہسپتال کے گاؤن کی صورت میں ایک بے رحم گمنامی نصیب ہوتی ہے۔ ماسیمو مینکیسٹروپا اِس صورتحال میں بھی جو ممکن ہے وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس غیرمعمولی صورتحال میں گورکن ہی مرنے والے کے رشتے داروں اور دوستوں کا متبادل بن گئے ہیں

’جو کپڑے ہمیں لواحقین فراہم کرتے ہیں وہ ہم میت کے اوپر رکھ دیتے ہیں، جیسے اس (میت) نے یہ پہن رکھے ہوں۔‘ ’لواحقین کے پاس ہم پر اعتماد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ اِس غیرمعمولی صورتحال میں گورکن ہی رشتے داروں اور دوستوں کا متبادل بن گئے ہیں۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیشتر ہلاک ہونے والوں کے قریبی لوگ خود بھی وائرس کا شکار ہو کر قرنطینہ میں ہیں۔ کیریٹو بتاتے ہیں کہ ’ہم ان (رشتہ داروں اور دوست احباب) کا فرض بھی نبھا رہے ہیں۔ ہم مرنے والے کے لواحقین کو تابوت کی تصویر بھیج دیتے ہیں۔ اِس کے بعد ہم ہسپتال سے میت کو لے کر یا تو دفنا دیتے ہیں یا جلا دیتے ہیں۔ لواحقین کے پاس ہم پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘ اینڈریا کیریٹو کہتے ہیں کہ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ غم زدہ لوگوں کی مدد نہیں کر پا رہے۔ کیریٹو گذشتہ تیس برس سے گورکنی کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کے والد بھی یہی کام کرتے تھے۔ وہ سنجھتے ہیں کہ تدفین کے دوران کیے جانے والے روایتی کام غم زدہ لواحقین کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔

’مرنے والے کے گالوں پر آخری مرتبہ ہاتھ پھیرنا، اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا اور انھیں ایک باعزت حالت میں دیکھنا۔ ایسا موقع نہ ملنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔‘ بہت سے گورکن اب خود بھی قرنطینہ میں ہیں۔ کچھ گورکنوں کو اپنا کاروبار بند بھی کرنا پڑا ہے۔ ایک بڑی تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ ان افراد کے پاس مناسب تعداد میں دستانے اور ماسک نہیں ہیں۔ کیریٹو بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس صرف ایک ہفتے کا حفاظتی سامان موجود ہے۔ جب یہ ختم ہو جائے گا تو ہم اپنا کام کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘

تدفین پر پابندی
اٹلی میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ایک ایمرجنسی قانون کے ذریعے روایتی تدفین پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ اٹلی جیسے رومن کیتھولک ملک کے لیے انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ کیریٹو روزانہ کم از کم ایک ایسے مردے کو دفناتے ہیں جس کا کوئی رشتے دار وہاں موجود نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب خود قرنطینہ میں ہیں۔ ماسیمو مینکیسٹروپا بتاتے ہیں کہ ’اِس وقت صرف ایک سے دو افراد کو تدفین میں شرکت کی اجازت ہے۔ اگر کوئی موجود ہوتا بھی ہے تو وہ اِس قابل نہیں ہوتا کہ مرنے والے کے لیے دو الفاظ ہی ادا کر سکے۔ تو اب ایسے موقع پر خاموشی ہی ہوتی ہے۔‘ اٹلی میں 23 مارچ تک کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جو دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ ہے۔ تدفین کرنے والی کمپنیوں کے دفاتر کے باہر لواحقین کی قطاریں لگی ہوئی ہیں جیسے کسی سپر مارکیٹ کے باہر ہوتی ہیں۔

شمالی اٹلی میں مردہ خانے بھرے ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے لیکن تدفین کرنے والے اِس تعریف سے محروم ہیں۔ ماسیمو مینکیسٹروپا کے مطابق تدفین کرنے والوں کو صرف روحوں کے ٹرانسپورٹر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ’ہمیں یونانی دیو مالائی داستان کے کردار کیران کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مرنے والوں کی روحوں کو دوسری دنیا میں لے جاتا ہے۔‘



Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts
Unique story of a daylight robbery in Karachi

Unique story of a daylight robbery in Karachi

Views 1202 | March 01, 2025

Comments...