How Was The Last Night of Imran (The Killer of Zainab) in Death Cell Before Being Hanged
Posted By: Saeed Riaz, September 15, 2020 | 17:48:50How Was The Last Night of Imran (The Killer of Zainab) in Death Cell Before Being Hanged
قصور کی ننھی زینب کے قاتل عمران کی پھانسی کی رات کیسے گزری؟
تحریر۔۔ طاہر چودھری،ایڈووکیٹ ہائیکورٹ،لاہور۔
سزائے موت کے قیدی کے جب پھانسی کے دن قریب آتے ہیں تو اس پر پہرہ مزید سخت کر دیا جاتا ہے۔ آخری دنوں میں اسے جیل کی کسی ایسے بیرک/کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے جہاں کیمرہ لازمی ہو۔ اس کی نگرانی کیمرے سے بھی جاری رہتی ہے اور آخری رات اس کی حرکات و سکنات پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے۔مجرم کو سورج کی کرنیں نکلنے سے پہلے پھانسی دی جانا ہوتی ہے۔ضابطے کی کارروائی کیلئے جس علاقے میں جرم ہوا، اس علاقے کے مجسٹریٹ کو بھی اس دن صبح ڈھائی تین بجے جیل لازمی پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے سزائے موت کے قیدی سے اس کی آخری وصیت پر دستخط یا انگوٹھا وغیرہ لگوایا جاتا ہے اور عدالتی کاغذات پر دستخط وغیرہ کی کارروائی ہوتی ہے۔
جس مجرم کو پھانسی دی جانا ہوتی ہے اس کی آخری چند راتیں بے نیند ہی گزرتی ہیں۔ ضابطے کی کارروائی کروانے والے افسران وغیرہ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں یاد پڑتا کہ کم از کم اپنی آخری رات کوئی مجرم سو سکے۔
مجھے صبح اس وقت پھانسی دے دی جائے گی۔ میری زندگی کے صرف اتنے گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ یہ سوچ کسی طاقتور سے طاقتور اعصاب والے بندے کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ لہذا آخری رات نیند کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سزائے موت کے قیدی اپنے آخری دنوں میں زیادہ تر وقت اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادت، دعاؤں وغیرہ میں گزارتے ہیں۔ آخری رات اس عمل میں تیزی آجاتی ہے۔ ضابطے کی کارروائی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ کئی قیدی ایسے ہوتے ہیں جنہیں گھسیٹ کر تختہ دار تک لے جانا پڑتا ہے۔ جب ان کو آواز دی جاتی ہے کہ چلو وقت اگیا۔ تو ایسے لگتا ہے تب سے ہی ان کی جان نکلنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ٹانگیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔سزائے موت دینے کے عمل پر مامور عملے کو سہارا دے کر یا دونوں بازوؤں سے اٹھا کر مجرم کو پھانسی گھاٹ تک لے کر جانا پڑتا ہے۔
زینب کے قاتل عمران کی آخری رات مختلف تھی۔ میرے ایک عینی شاہد دوست کا کہنا ہے کہ صبح تین بجے کے قریب جب میں نے نگرانی کرنے والے کیمرے سے دیکھا تو عمران سویا ہوا تھا۔ وہ کوئی عبادت وغیرہ نہیں کر رہا تھا۔یہ بے فکری والی نیند جیسی نیند تھی۔ یہ بات ان کو خلاف معمول لگی۔ اپنی آخری رات سزائے موت کا کوئی قیدی اس طرح آرام سے سو نہیں رہا ہوتا۔ ان دوست کے مطابق عمران ایک اجڈ ٹائپ بندہ تھا۔وہ ابنارمل ٹائپ دکھائی دیتا تھا۔وہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ آخری وقت میں جب وصیت والا کاغذ اس کے سامنے رکھا گیا اور پوچھا گیا کیا تمہاری یہی وصیت ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں؟ تو اس وقت بھی اس نے کچھ خاص تاثرات نہیں دیے۔ وہ ایسے تاثرات دے رہا تھا جیسے اسے کچھ فکر ہی نہ ہو۔ اسے دیکھ کر انہیں ایسا لگتا تھا جیسے اسے پتہ ہی نہ ہو کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے اسے شاید یہ بھی نہ پتہ ہو کہ اس پر ایک چھوٹی بچی کے ریپ اور قتل جیسا سنگین الزام ہے۔
عدالتوں میں جن مقدمات میں سب سے زیادہ احتیاط کی جاتی ہے وہ سزائے موت کے مقدمات ہوتے ہیں۔ حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ ایسی کوئی بھی غلطی نہ ہو کہ کوئی بے گناہ پھانسی لگ جائے۔ اس کیلئے ثبوتوں کی صحت پر بہت زیادہ زور اور توجہ دی جاتی ہے۔
زینب کے قاتل عمران کے مقدمے میں وقوعے کی کوئی عینی گواہ نہیں تھے لہذا کوئی شناخت پریڈ نہیں کروائی گئی تھی۔ پھانسی کی سزا صرف ڈی این اے رپورٹ کی بنیاد پر دی گئی تھی۔ فارنزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عمران کے ثویبز زینب کے جسم یا کپڑوں سے ملنے والے سیمنز سے میچ کر گئے تھے۔ اس رپورٹ کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ بس اعلان کیا گیا کہ زینب کا قاتل مل گیا ہے۔ اس کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے اور عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ قاتل پکڑا گیا۔ اس رپورٹ کی ہی بنیاد پر انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزم عمران کو پھانسی کی سزا سنائی جو آخر تک برقرار رہی۔ اور عمران کو چند ماہ میں پھانسی دے دی گئی۔ عمران کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے قصور میں اس سے پہلے ریپ کے بعد مار دی جانے والی کچھ مزید بچیوں کے قتل کا بھی اعتراف کیا۔ جب یہ بات سامنے آئی تو پھر ایک اور ملزم مدثر کی کہانی بھی سامنے ائی۔ پوچھا گیا کہ اگر فلاں بچی کو قتل کرنے میں عمران ملوث ہے جس کا کہ افسران کے بقول اس نے اعتراف بھی کیا ہے تو پھر کچھ سال پہلے اسی بچی کا ملزم قرار دے کر مدثر نامی نوجوان کو کیوں پولیس مقابلے میں مار دیا گیا؟ اس خبر نے عوام میں تشویش کی لہر دوڑائی اور یہ بات میڈیا پر بھی آئی تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس پر سوموٹو نوٹس لیا اور واقعے میں ملوث ایس ایچ او کو برطرف کیا گیا۔
پولیس وقوعے کے بعد سابقہ ریکارڈ والے ملزمان کو پہلے پکڑتی ہے۔ کئی واقعات میں مار پیٹ کر کے ناکردہ جرائم بھی قبول کروا لیے جاتے ہیں۔ ایک ملزم کو پکڑ کر اس سے کئی وارداتیں منسوب کر کے اپنی جان چھڑوا لی جاتی ہے کہ ہم نے اتنی چوریوں کا ملزم پکڑ لیا ہے۔
طریقہ یہ ہوتا ہےکہ جب کسی واردات، خاص طور پر قتل یا زیادتی کے واقعے پر عوامی احتجاج زیادہ سامنے آئے یا میڈیا اس پر زیادہ بات کرنا شروع کر دے کہ مجرموں کو پکڑا جائے تو متعلقہ اداروں پر ایک پریشر بن جاتا ہے۔ وہ کسی سابقہ مجرمانہ ریکارڈ والے ملزم یا مجرم پر ہی اس واردات کا ملبہ ڈال کر اسے مقابلے میں مار دیتے ہیں یا گرفتار کر لیتے ہیں اور اس طرح عوامی غم و غصہ کم کیا جاتا ہے۔ جب ایک بار کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے مجرم پکڑ لیا ہے۔ ڈی این اے وغیرہ بھی میچ کر گیا ہے تو پھر عوام کو بھی فوری یقین ا جاتا ہے کہ یہی مجرم تھا۔ نہ کسی عدالت میں اس ڈی این اے رپورٹ کو چیلنج کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس ملزم کو اس طرح صفائی یا دفاع وغیرہ کا موقع دیا جاتا ہے جس طرح عام مقدمات میں ملزمان کو حاصل ہوتا ہے۔ ٹی وی پر بار بار اس کی تصویر اور معلومات وغیرہ چلا چلا کر اسے پہلے ہی مجرم ثابت کیا جا چکا ہوتا ہے۔ بس سزا دینے کی ضابطے کی کارروائی ہی باقی رہتی ہے۔ اعلان کردہ ملزم کیخلاف بیانیہ پہلے ہی بنا دیا گیا ہوتا ہے۔ لہذا اس کی بات کون سنے؟ اس کے حق میں بات کر کے یا یہ کہہ کر کہ اسے بھی دفاع کا پورا اور صحیح موقع دیا جائے، عوامی غیض و غضب کا رخ اپنی طرف موڑنے کی جرات کون کرے؟
سانحہ لاہور موٹر وے میں بھی ابھی تک کچھ ایسا ہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خاتون کے کپڑوں پر موجود سیمنز سے ایک ملزم کا ڈی این اے میچ کر گیا ہے۔عابد نامی اس ملزم پر پہلے بھی ایک زنا کا مقدمہ رہا ہے۔
زنا کے مقدمات تعزیرات پاکستان کے سیکشن 376 کے تحت درج کیے جاتے ہے۔ اب اس سیکشن 376 کی بھی کہانی سنیے۔
قانون کی پریکٹس کرنے والوں کو پتہ ہے 376 کے زیادہ تر مقدمات کیسے درج ہوتے ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہوتی ہے۔زیادہ تر مقدمات میں ہوتا یوں ہے کہ لڑکا لڑکی کے باہمی رضامندی سے تعلقات ہوتے ہیں۔ شادی وغیرہ کے وعدوں پر بھی۔ جب تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ وعدے وعید پورے نہیں ہوتے تو لڑکی لڑکے کیخلاف ریپ کا مقدمہ درج کرا دیتی ہے۔ میرے باس کہا کرتے تھے کہ زنا کے اکثر مقدمات میں یہ ریپ لڑکی نہیں بلکہ لڑکے کا ہوتا ہے۔ تعلقات تو باہمی رضامندی سے ہوتے ہیں۔ لیکن لڑکے کو کچھ سال کی جیل بھگتنا پڑ جاتی ہے۔ خاندان الگ بدنام اور ڈسٹرب ہوتا ہے۔
سیکشن 376 کی ایف آئی آر کی کہانی آپ کو کچھ سمجھ آگئی ہوگی۔
کہا جا رہا ہے کہ سانحہ موٹر وے خاتون کے مبینہ ملزم عابد پر پہلے بھی زنا کا ایک مقدمہ رہا ہے۔ غالبا عمران کے بارے میں بھی کہا گیا تھا کہ وہ بھی کریمنل ریکارڈ یافتہ تھا۔
شکوک و شبہات یہ ہیں کہ کیا یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جب بھی کسی واقعے پر عوامی غصہ اور احتجاج زیادہ ہو تو کسی بھی سابقہ ریکارڈ رکھنے والے ملزم کے نام کی پرچی نکالی جائے۔ فارنزک رپورٹ مثبت اگئی، ڈی این اے میچ کر گیا کا اعلان کرکے اسے لٹکا دیا جائے۔ آج تک میں نے نہیں سنا کہ کسی پاکستانی عدالت میں ڈی این اے رپورٹ کو چیلنج کیا گیا ہو یا اس کیخلاف فیصلہ دیا گیا ہو۔ مطلب یہ کہ ڈی این اے رپورٹ حرف آخر ہے۔ کیا کوئی بھی حکومت اپنی ناکامی چھپانے، بدنامی کم کرنے اور عوامی غم و غصہ کم کرنے کیلئے اپنے ہی ایک ادارے کی رپورٹ کو مینیج نہیں کر سکتی؟
جرم کے بعد ملزم کی متاثرہ شخص یا عینی شاہدین سے شناخت پریڈ بھی لازمی کرائی جاتی ہے۔جب متاثرہ خاتون کہہ رہی ہے کہ وہ دونوں ملزمان کو سامنے آنے پر آسانی سے شناخت کر سکتی ہے۔پہچان سکتی ہے۔تو پھر اس سانحے کے مبینہ ملزم کی شناخت پریڈ کرائے بغیر ہی اسے کسی پولیس مقابلے میں مار دیا جانا میری کہانی اور میری تشویش اور تحفظات کو مزید تقویت بخشے گا۔
Source