Why PTI Govt Is Printing So Many Currency Notes?
Posted By: Zafar Ali, October 11, 2020 | 03:31:46Why PTI Govt Is Printing So Many Currency Notes?
نئے کرنسی نوٹس، بلیک اکانومی اور منی لانڈرنگ: حکومتِ پاکستان اتنے نوٹ کیوں چھاپ رہی ہے؟
پاکستان میں زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں حالیہ برسوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ 30 جون 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال میں زیر گردش نوٹوں میں گزشتہ آٹھ برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور صرف ایک مالی سال میں گردشی نوٹوں کی تعداد میں 1.1 ٹریلین کا اضافہ ہوا۔
پاکستان میں معاشی حرکیات پر نگاہ رکھنے والے افراد کے نزدیک یہ اضافہ غیر معمولی ہے اور اس کے معیشت پر بھی منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر گردشی نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے بدلنے کے علاوہ نئے نوٹ بھی بڑی تعداد میں چھاپے ہیں۔
ان کے مطابق مارکیٹ میں نوٹوں کی طلب و رسد میں توازن برقرار رکھنے کے لیے معمول کے مطابق تو نئے نوٹ چھاپے جاتے ہیں جو کسی حد تک اضافے کا باعث بنتے ہیں تاہم غیر معمولی اضافے کا مطلب ہے کہ بہت زیادہ نوٹ چھاپے گئے۔
پاکستان میں نوٹ اور پرائز بانڈ چھاپنے کے لیے کاغذ تیار کرنے والے ادارے سکیورٹی پیپرز لمٹیڈ کے گزشتہ سال کے مالی نتائج میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ کمپنی کے مالی نتائج کے مطابق اس کے منافع میں گزشتہ مالی سال میں ساٹھ فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
یاد رہے کہ پاکستان میں زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آرہا ہے جب ای کامرس اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے خاص کر کورونا وائرس کی وبا کے ابھرنے کے بعد آن لائن بینکنگ اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گردشی کرنسی میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ
پاکستان میں مرکزی بینک کی ویب سائٹ میں آرکائیو میں موجود زیر گردش کرنسی کے اعداد وشمار گزشتہ آٹھ مالی برسوں تک کی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان کے مطابق مالی سال 2012 کے اختتام پر زیر گردش کرنسی کی تعداد 1.73 ٹریلین تھی جو اگلے سال میں 1.93 ٹریلین ہو گئی۔
مالی سال 2014 کے اختتام پر اس کی تعداد 2.17 ٹریلین تک بڑھ گئی تو اس سے اگلے سال اس کی تعداد 2.55 ٹریلین کی سطح تک جا پہنچی۔
مالی سال 2016 میں زیر گردش کرنسی کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا اور یہ 3.33 ٹریلین کی بلند سطح پر بند ہوئی۔
اگلے سال میں یہ 3.91 ٹریلین کی سطح تک بڑھ گئی۔ مالی سال 2018 کے اختتام پر اس کی تعداد 4.38 ٹریلین تک جا پہنچی اور اگلے سال میں اس میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا جو 4.95 ٹریلین تک کی بلند سطح پر بند ہوئی۔
گذشتہ مالی سال 2020 میں اس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جب یہ 6.14 کی بلند ترین سطح پر بند ہوئی۔
اے کے ڈی سیکورٹیز میں ہیڈ آف ریسرچ فرید عالم کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ہونے والا اضافہ سب سے بلند اضافہ تھا۔
انھوں نے بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں گزشتہ دور حکومت کے مقابلے میں دوگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت زیادہ کرنسی چھاپ رہی ہے جس کی وجہ سے یہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
زیر گردش کرنسی میں اضافے کی وجوہات
پاکستان میں زیر گردش کرنسی، جن میں بوسیدہ نوٹوں کے بدلے میں نئے نوٹوں میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرضہ نہیں لے رہی اور بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے کمرشل بینکوں سے اوپن مارکیٹ آپریشن کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرے گی۔
یاد رہے کہ ماضی میں حکومتیں سٹیٹ بینک سے قرضہ لیتی تھیں تو سٹیٹ بینک نئی کرنسی چھاپ کر اس ضرورت کو پورا کرتا تھا تاہم اب آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے سٹیٹ بینک سے پیسے لینے کا راستہ بند ہے۔
اس سلسلے میں معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ زیر گردش کرنسی میں بہت زیادہ اضافہ اس بات کی نشاندھی ہے کہ نئی کرنسی بڑی تعداد میں چھاپی گئی ہے۔ ان کے مطابق بظاہر تو سٹیٹ بینک سے پیسہ نہیں لیا جا رہا تاہم ہمارے ہاں ہر چیز شفاف بھی نہیں ہوتی۔
انھوں نے بتایا کہ بجٹ کے موقع پر بھی ہم لوگوں نے سوال اٹھایا تھا کہ جب سٹیٹ بینک سے ادھار لینا بند ہے تو پھر نئے نوٹوں کے اعداد وشمار میں اضافہ کیوں ہوا۔
انھوں نے کہا حکومت نے بھی غیر واضح جواب دے کر معاملہ نمٹا دیا۔ قیصر بنگالی کے مطابق زیر گردش کرنسی میں بے تحاشا اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کرنسی نوٹ دھڑا دھڑ چھاپے جا رہے ہیں۔
عارف حبیب سیکیورٹیز میں معیشت کی تجزیہ کار ثنا توفیق نے اس سلسلے میں کہا کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں سے زیر گردش کرنسی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس میں اضافے کا غیر معمولی رجحان اس وقت ہوا جب پانچ سال پہلے حکومت نے بینکوں کے ذریعے ٹرانزیکشنز پر ٹیکس بڑھا دیا تو لوگوں نے بینکوں میں ڈیپازٹ کی بجائے کیش کی صورت میں رقم رکھنا شروع کر دی۔
ثنا کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں کیا جانے والا آئی ایم ایف کا معاہدہ ٹیکس اور ریونیو بڑھانے پر زور دیتا ہے اور حکومت نے اس سلسلے میں کئی اقدامات بھی اٹھائے ہیں تاہم اس کی وجہ سے لوگوں نے بینکوں کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی بجائے کیش کی ذخیرہ اندوزی بھی کی جس میں نوٹوں کی طلب کو بڑھایا اور اس نے مزید نوٹ چھاپنے کے رجحان میں اضافہ کو جنم دیا۔
فرید عالم نے کہا کہ کمرشل بینکوں سے پیسے ادھار میں اٹھانا بھی کسی حد تک کرنسی کے چھاپنے کی وجہ بن رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت کو صرف بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے سٹیٹ بینک سے قرض نہ لینے کا پابند کیا ہے تاہم دوسرے اخراجات جیسے کورونا وائرس کی وبا کے دوران حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف پیکج کے سلسلے میں نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
نوٹوں کی چھپائی سے افراط زر میں کس طرح اضافہ ہوتا ہے
زیادہ تعداد میں نوٹ چھاپنے سے افراط زر یعنی مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔
تجزیہ کار ثنا توفیق کہتی ہیں کہ زیادہ نوٹ چھاپنے کا مطلب ہے کہ لوگوں کے پاس زیادہ پیسے آرہے ہیں تو ان کی قوت خرید بھی بڑھ رہی ہے اور وہ زیادہ پیسہ خرچ کریں گے جو اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ افراط زر کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔ اس قسم کے افراط زر میں اضافے کو قابو میں کرنے کے لیے شرح سود بڑھایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے پہلے دو برسوں میں سپلائی سائیڈ میں مسائل کی وجہ سے افراط زر کی شرح بڑھی تاہم زیر گردش کرنسی میں بے تحاشا اضافے سے ڈیمانڈ کے پہلو سے افراط زر میں بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔
کرنسی نوٹوں کی تعداد میں اضافے کے کیا منفی اثرات ہوتے ہیں
کرنسی نوٹوں کی تعداد میں اضافے کے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار ثنا توفیق نے بتایا کہ اس میں اضافہ بلیک اکانومی کو بڑھاتا ہے۔
’اگر نوٹ زیادہ تعداد میں چھپ کر جا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ ڈیپازٹ کی بجائے کیش کی صورت میں اپنی دولت کو محفوظ کر رہے ہیں۔ اسے غیر رسمی یا بلیک اکانومی کہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ کرنسی نوٹوں کا بڑی تعداد میں چھپنا سمگلنگ اور منی لانڈرنگ بھی بڑھاتا ہے۔
’اس کا مطلب لوگ بینکوں کی بجائے اپنے پاس پیسے رکھ رہے ہیں اور یہ وہی پیسہ ہوتا ہے جو غیر قانونی طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ زیادہ کرنسی نوٹ کیش کی ذخیرہ اندوزی کا بھی ذریعہ بنتے ہیں اور دولت کو چند ہاتھوں تک محدود کرتے ہیں۔
Source