Top Rated Posts ....

Shocking Story: What Happened With Two Women & Advocate Tahir Chaudhry in Shaukat Khanum Hospital Lahore

Posted By: Dr. Shiraz, January 05, 2021 | 04:01:32


Shocking Story: What Happened With Two Women & Advocate Tahir Chaudhry in Shaukat Khanum Hospital Lahore





اس ویڈیو میں جو پہلا چہرہ نظر آرہا ہے وہ وکیل طاہر چوہدری کا ہے۔ طاہر چوہدری فیس بک پر سیاسی، سماجی اور قانونی معاملات پر اظہار رائے کرتے رہتے ہیں اور کئی بار ٹی وی شوز میں بھی آچکے ہیں۔ طاہر چوہدری کی فیس بک پروفائل پر اس واقعے سے پہلے ، درمیان اور بعد میں کئی پوسٹس ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ یہاں ہم طاہر چوہدری کی وہ پوسٹ شیئر کررہے ہیں جس میں انہوں نے تمام واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔ ملاحظہ کیجئے تفصیل طاہر چوہدری کی زبانی

-----------------------------------------------

گزشتہ رات شوکت خانم ہسپتال لاہور میں میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا من و عن لکھ رہا ہوں۔ایک لفظ کا بھی مبالغہ کئے بغیر۔

گزشتہ روز دن دو بجے میں ماڈل ٹاؤن کچہری میں جج میڈم اقصی (مجسٹریٹ تھانہ جوہر ٹاؤن) کی عدالت میں تھا۔ان لائن فراڈ کے ایک کیس میں مدعی کی طرف سے موجود تھا۔ گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کیلئے۔ عدالت میں موبائل سائلنٹ ہوتا ہے۔2 بج کر 22 منٹ پر ایک نامعلوم نمبر سے کال ائی۔ عدالت میں ہونے کی وجہ سے ریسیو نہیں کر سکا۔ ایک منٹ بعد مجھے میسج موصول ہوتے ہیں کہ بھائی ایمرجنسی ہے۔کال ریسیو کریں۔2:25 پر مجھے اسی نمبر سے پھر کال آتی ہے۔ میں اب عدالت سے فری ہوں۔ کال ریسیو کرتا ہوں۔

ایک خاتون بڑی پریشانی کی حالت میں بولتی ہیں کہ طاہر بھائی اوپر خدا اور نیچے آپ ہیں۔ بڑی امید اور آس کے ساتھ اپ کو فون کیاہے۔ میرے والد بزرگ اور بیمار ہیں۔ ہم بہنیں اس وقت مصیبت میں ہیں۔ ہماری مدد کیجیے۔
میں نے پوچھا جی بتائیے۔ ایشو کیا ہے۔

بولیں، میری چھوٹی بہن شوکت خانم ہسپتال میں ایک شاپ پر کام کرتی تھی۔ اس نے کچھ عرصہ قبل یہاں سے کام چھوڑ دیا تھا۔ 4،3 دن پہلے بہن کو ہسپتال سے کال آئی کہ آپ کچھ ہفتے آڈٹ رپورٹ نہیں جمع کراتی رہیں۔ حساب میں ڈیڑھ لاکھ روپے کم آرہے ہیں۔ بہن نے کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں حساب پورا کر کے دے کر آئی تھی۔ لیکن آپ پھر بھی اپنی مزید تسلی کریں۔ میں حاضر ہوں۔ انہوں نے کل پھر فون کر کے کہا کہ آپ آج ہسپتال ائیں۔ میری بہن چلی گئیں۔

خاتون کا کہنا تھا جب بہن کافی دیر واپس نہیں آئی تو میں نے اس سے رابطہ کیا۔ اسکاکہنا تھا کہ وہ لوگ آنے نہیں دے رہے۔کہتے ہیں حساب میں ڈیڑھ نہیں ڈھائی لاکھ روپے کم ا رہے ہیں۔ وہ پورے کر کے جائیں۔

میں نے ان خاتون کو کہا کہ یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے۔ بہن کو کہیں کہ اٹھ کر گھر اجائے۔ وہاں جو بندہ اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اسے کہیں کہ آپ کسی قانونی فورم پر چلے جائیں۔

ان خاتون کو کچھ تسلی دے کر بات ختم ہوگئی۔ میں پھر مصروف ہوگیا۔2 بج کر 38 منٹ پر اسی نمبر سے مجھے پھر کال ائی۔ میں ریسیو نہیں کر سکا۔ ایک منٹ بعد مجھے پھر میسجز موصول ہوئے کہ بھائی برائے مہربانی کال ریسیو کیجیے۔ فری ہو کر چند منٹ بعد پورے 3 بجے میں نے اس نمبر پر خود کال کی۔ آواز کلیئر نہ ہونے کی وجہ سے کال منقطع ہوئی اور پھر خاتون نے خود کال کی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی شوکت خانم ہسپتال آگئی ہیں۔ لیکن یہاں تو صورتحال مزید گھمبیر ہے۔ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ دکان کے حساب میں 24 لاکھ روپے کی کمی ا رہی ہے۔ یہ تو اوسان خطا کر دینے والی بات ہے۔ میں خود ایک سرکاری ٹیچر ہوں۔ میں نے ان لوگوں سے کہا ہے کہ دکان میں سارا سامان اتنے کا نہیں ہو گا جتنا آپ خسارہ بنا رہے ہیں۔شاپ پر جتنا سامان ہے،4،3 بار بھی اتنا مزید ڈالیں تو 24 لاکھ کا پھر بھی نہ بنے۔ آپ لوگ کیا بات کر رہے ہیں۔ آپ ہمیں جانے دیں۔ الزام نہ لگائیں۔ کیس کرنا ہے تو کر دیں۔ ہم فیس کر لیں گے۔ لیکن طاہر بھائی وہ لوگ تو اب مجھے بھی نہیں نکلنے دے رہے۔ کہتے ہیں پیسے پورے کرو پھر جانے دیں گے۔

یہ سب سن کر میں کچھ حیران ہوا۔ کہ یہ شوکت خانم کی انتظامیہ ایسا کیسے کر سکتی ہے۔ کرپشن کا کوئی کیس ہے بھی تو اسے کسی قانونی فورم پر رپورٹ کریں۔ پولیس وغیرہ۔ خود محبوس کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اور وہ بھی خواتین کو جن کو حراست میں رکھنے کا اختیار تو عام تھانے کی پولیس کو بھی نہیں ہوتا۔
میں نے ان خاتون کو کہا کہ ان سے اعتماد سے بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ آپ ہمیں اس طرح نہیں روک سکتے۔ ہمیں گھر جانے دیں۔
ان بہن کو ایک بار پھر تسلی دے کر فون بند ہوگیا۔

شام 7:31 پر مجھے پھر اسی نمبر سے کال ائی۔ میں ابھی ہائیکورٹ کے پاس اپنے دفتر میں ہی موجود تھا اور گھر نکلنے کی تیاری کر رہا تھا۔ مجھے تھا کہ ان خاتون کا مسئلہ حل ہو گیا ہوگا۔ یہ دونوں بہنیں گھر چلی گئی ہوں گی اور اب آئندہ کے لائحہ عمل کیلئے مشورہ کرنا چاہ رہی ہوں گی۔ لیکن اس وقت میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب ان خاتون نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ طاہر بھائی یہ لوگ ہمیں نہیں چھوڑ رہے۔ میں ایک سرکاری ٹیچر ہوں۔ اس بات کا بھی لحاظ نہیں کر رہے۔ دن سے ہمیں یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ میں یہ سن کر تو شدید صدمے میں تھا۔ کہ شوکت خانم پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں واقع ہے۔ یہاں کی انتظامیہ بھی بہترین پڑھی لکھی اور معاملہ فہم ہو گی۔ یہ کوئی پسماندہ علاقہ بھی نہیں کہ جہاں خواتین کو اس طرح ٹریٹ کیا جا رہا ہو۔ میں نے ان خاتون سے کہا کہ میں بس تھوڑی دیر میں آفس سے نکل رہا ہوں۔ پتہ نہیں آپ مجھے جو بات بتا رہی ہیں۔ سچ ہے یا معاملہ کچھ اور ہے۔ آپ اصرار کر رہی ہیں تو میں ہسپتال کا چکر لگا لیتا ہوں۔ انتظامیہ سے بات کر کے شاید معاملہ بہتر سمجھ آئے مجھے۔ میں ا رہا ہوں۔

میں تھوڑی دیر بعد 8 بجے ہائیکورٹ کے قریب اپنے دفتر سے نکلا۔ خاتون کو کال کی اور سیدھا شوکت خانم ا گیا۔میں تقریبا ساڑھے 8 بجے شوکت خانم پہنچا۔ خاتون کو کال کی اور ایک سکیورٹی گارڈ کی معیت میں اندر، غالبا یہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ تھا، چلا گیا۔
واضح رہے اس سے پہلے میں نے راستے میں ہی دوران سفر اس ایشو سے متعلق چند لائنیں لکھیں اور اپنی فیس بک وال پر شیئر کر دیں۔ کہ یہ معاملہ ہے اور میں شوکت خانم ہسپتال جا رہا ہوں۔ یہ چند لائنیں میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر لکھیں۔ اس دوران میں نے اپنے دو دوستوں کو بھی معاملے کا بتایا کہ میں اس ایشو میں وہاں جا رہا ہوں۔ میرے ساتھ صرف میرا آفس بوائے تھا۔ میں نے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ پتہ نہیں اصل معاملہ کیا ہے۔ تاہم اگر خواتین کیساتھ زیادتی والا کوئی معاملہ ہوا اور بات نہ سنی گئی تو میں اس سب بات چیت کی ویڈیو ریکارڈ کر لوں گا۔

میں وہاں جا کر بیٹھا تو غالبا ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے ایک دو صاحبان ائے۔ پوچھا آپ کون۔ میں نے تعارف کرایا اور کہا کہ بھائی آئیں بیٹھ کر بات کریں۔ کیا ایشو ہے یہ۔ میں ان خواتین کا وکیل ہوں۔ مجھے سمجھا دیں کیا معاملہ ہے سب۔ تاکہ ہم اپنی قانونی پروٹیکشن کیلئے کچھ کر سکیں۔ یہ صاحبان کسی بڑے کو لانے کیلئے وہاں سے چلے گئے۔ بڑے تو نہیں ائے، 5،4 سکیورٹی گارڈز ا گئے۔ کہا کہ آپ یہاں سے جائیں۔ آپ یہاں نہیں ا سکتے۔ آپ اجازت کے بغیر اندر آئے ہیں۔ میں نے کہا بھائی مجھے آپ میں سے ہی ایک سکیورٹی گارڈ اس کمرے تک خود لایا ہے۔ اپنے کیمروں کی فوٹیج نکال کر دیکھ لیجیے۔ ورنہ میں تو شاید پہلی بار شوکت خانم آیا ہوں۔ مجھے تو اندر آپ کے اس کمرے کے راستے کا بھی نہیں پتہ۔ تاہم یہ لوگ کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھے۔

میری ان سے درخواست یہی تھی کہ اگر ان میں سے کسی نے کوئی جرم کیا بھی ہے تو متعلقہ فورم پولیس ہے یا عدالت۔ آپ انہیں نہیں بٹھا سکتے۔ سارادن ہو گیا۔ انہیں جانے دیں۔ میں اس دوران ان صاحبان کو سر سر کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔ میری گفتگو میں ایک بھی لفظ بدتمیزی کا نہ تھا۔چند سیکنڈ کی ریکارڈ ہونے والی ویڈیو میں بھی مجھے سنا جا سکتا ہے۔لیکن یہ لوگ سننے کو تیار نہ تھے۔

جب مجھے لگا کہ یہ لوگ زور زبردستی کر کے مجھے باہر نکالنا چاہتے ہیں تو اچھی قسمت کہ فوری فیس بک لائیو ان کر لیا۔ چند سیکنڈ کی ویڈیو میں محبوس خواتین سامنے بیٹھے نظر آ رہی ہیں۔ اور پھر ان لوگوں نے مجھ سے میرا موبائل چھین لیا۔ اور مجھے دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہ دیکھیں اب ہم آپ کا کیا حال کرتے ہیں۔ آپ نے پرائیویسی بریچ کی ہے۔ ویڈیو بنائی ہے۔ اسے ڈیلیٹ کریں۔

اچھا یہ ہوا کہ جب انہوں نے مجھ سے موبائل چھینا میں موبائل کو لاک کر چکا تھا۔ ویڈیو یہ لوگ اب خود ڈیلیٹ نہیں کر سکتے تھے۔ 6 سکیورٹی گارڈز اور انتظامیہ کے 4 لوگوں نے اب الٹا مجھے یرغمال بنا لیا تھا۔ اس دوران میں یہاں کمرے اور ہال میں دیکھ چکا تھا۔ ہر طرف کیمرے موجود تھے۔ مطلب یہ کہ نہ صرف ہماری حرکات و سکنات بلکہ بات چیت کی ویڈیو بھی ریکارڈ ہوئی ہوگی۔ ایک ایک سیکنڈ کی ویڈیو نکال کر دیکھا جا سکتا ہے۔ میری کہانی کا بتایا ہوا ایک لفظ بھی غلط یا خود سے گھڑا ہوا ہو تو میں مجرم ہوں گا۔

یہ لوگ میرے لئے اب پولیس کو بلا چکے تھے۔ میرے پاس ایک چھوٹا موبائل (جاز ڈیجٹ نمبرز والا) جیب میں موجود تھا۔ میں بھی 15 پر کال کر چکا تھا کہ یہاں خواتین کو یرغمال بنا کر رکھا گیا ہے۔ پولیس ائی۔ دونوں طرف سے کہانی سنی۔ انتظامیہ سے کچھ خاص کہانی بنی نہیں۔ مجھے پولیس والوں کے ساتھ الگ انتظار کرنے کو کہا گیا۔ معاملہ بگڑتا اور خود کے گلے پڑتا ہوا نظر آیا تو ہمیں بتائے بغیر خواتین کو پچھلے گیٹ سے نکال دیا گیا۔ چند منٹ بعد میں بھی پولیس والوں کے ساتھ باہر ا گیا۔ میرا موبائل مجھے واپس مل گیا۔ ابھی میں دوستوں کے ساتھ شوکت خانم کے مرکزی دروازے کے باہر ہی کھڑا تھا کہ ان ہی خاتون کی 10:04 پر ایک بار پھر کال ائی۔ کہ بھائی ہم گھر پہنچ چکی ہیں۔ ان لوگوں نے ہمیں پچھلے دروازے سے نکال دیا تھا۔ آپ کہاں ہیں۔ میں نے پوچھا آپ خیریت سے تو ہیں؟ کوئی ایشو تو نہیں ہوا؟ کہنے لگیں نہیں کچھ نہیں ہوا۔ بس وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ اب دیکھو تم لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ بس انتظار کرو۔ یہ خاتون اب ڈری ہوئی تھیں کہ بھائی میری سرکاری ملازمت ہے۔ روزی روٹی کا یہی ایک وسیلہ ہے۔ بہن کو بچاتے کہیں یہ لوگ مجھے ہی کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔

میں نے ایک بار پھر ان خاتون کو تسلی دی اور گھر اگیا۔ مشورے کے بعد قانونی کارروائی کریں گے۔

کہا ی مختصر، گزشتہ رات سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا میں رات کو ملک کے سب سے ترقی یافتہ صوبے کے سب سے ترقی یافتہ شہر کے سب سے اچھے ہسپتال میں موجود تھا یا کسی جنگل میں؟
ہم انسان ہیں؟

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سوا کسی بھی شخص یا ادارے کو کون اختیار دیتا ہے کہ اس طرح کسی کو بھی محبوس رکھیں اور وہ بھی خواتین کو اور غنڈہ گردی کریں؟

خواتین ملزمان کو تو روایتی تھانے میں رکھنے کی بھی قانونا اجازت نہیں ہے۔ یہ کیسے پڑھے لکھے لوگ تھے جو اس طرح دیدہ دلیری سے سارا دن خواتین کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں اور پوچھنے پر شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا بدمعاشی پر اتر آتے ہیں اور پولیس کو بلاتے ہیں۔

میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ میری اس تحریر کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔اپنی فون کالز ہسٹری، میسجز شیئر کر رہا ہوں۔ میرا کل ان اوقات کا کال ڈیٹا نکلوا کر چیک کروایا جائے۔ کل دن صبح سے رات 10 بجے تک کا ہسپتال کے اس حصے کا کیمروں کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کیا جائے۔ کیوں ان خواتین کو پورا دن یرغمال بنائے رکھا گیا؟
عمران خان صاحب! اب تو آپ وزیراعظم بھی ہیں۔ اور اس ہسپتال کے فاؤنڈر اور سربراہ بھی۔ کیا آپ نوٹس لیں گے؟
کچھ اس معاملے کی انکوائری کرائیں گے؟

طاہر چودھری، ایڈووکیٹ ہائیکورٹ،لاہور۔






Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...