Complete Details of Four Friends Who Were Killed In Kashmala Tariq's Car Crash
Posted By: Majid Ali, February 03, 2021 | 06:36:24Complete Details of Four Friends Who Were Killed In Kashmala Tariq's Car Crash
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے پانچ نوجوان خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ایک ہی علاقے کے رہنے والے اور قریبی دوست تھے۔
ہلاک ہونے والے فاروق اور زخمی مجیب الرحمن کنگ عبداللہ ہسپتال مانسہرہ میں سکیورٹی گارڈ کے فرائض ادا کرتے تھے جبکہ محمد انیس، محمد عادل اور حیدر علی عرف سونی بہت ہی قریبی دوست اور طالب علم تھے۔
پیر کی رات اسلام آباد میں وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق کے قافلے میں شامل تیز رفتار گاڑی کی ایک سنگل پر ایک مہران گاڑی سے ٹکر لگنے کے بعد مہران میں سوار پانچ میں سے چار دوست جان کی بازی ہار گئے۔
یہ دوست بہتر مستقبل کے خواب سجائے اپنے ایک دوست کی نوکری کے انٹرویو کے لیے مانسہرہ سے اسلام آباد آئے تھے۔
انہی میں سے ایک نوجوان محمد انیس کے کزن اور قریبی دوست محمد عثمان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقوں میں کہرام مچ گیا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ دوست جو ہر وقت ایک ساتھ رہتے تھے اس طرح ایک ساتھ ہی دنیا سے چلے جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ محمد انیس تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی تلاش کر رہے تھے کیونکہ ان کے والد ایک سرکاری ادارے میں کلاس فور کی ملازمت کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں ’یہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور اس کو اندازہ تھا کہ اس پر بڑا بھائی ہونے کے ناطے گھر کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔‘
محمد عثمان کا کہنا تھا کہ چاروں دوست ایک دوسرے کے مددگار تھے جنہیں اکثر علاقے میں اکھٹا دیکھا جاتا تھا اور وہ خوشی و غم کے موقعوں پر ایک ساتھ علاقے میں کام کر رہے ہوتے تھے۔
محمد انیس انسداد منشیات کے ادارے میں بھرتی کے لیے انٹرویو کی غرض سے اپنے دوستوں کے ہمراہ اسلام آباد آئے تھے۔
محمد انیس کے ایک قریبی دوست محمد انس کا کہنا تھا کہ جانے سے پہلے وہ انھیں مل کر گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں ’اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں نے اے این ایف (انسداد منشیات کا ادارہ) میں بھرتی ہونے کے لیے بہت تیاری کر رکھی ہے۔ اس نے پہلا امتحان پاس کر لیا تھا۔ منگل کو اس کا انٹرویو ہونا تھا۔‘
محمد انس کا کہنا تھا کہ ’میں ان سب کا بچپن کا دوست ہوں۔ ہم نے ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ ایک ساتھ زندگی کے خوبصورت لمحات گزارے تھے۔ ہم سب کے اپنے اپنے مستقبل اور ایک دوسرے کے لیے بہت بلند عزائم تھے۔ ان کو حاصل کرنے کے لیے ہم سب دوست ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ مگر اب میرے چاروں دوست اس دنیا میں نہیں رہے جس کا بہت دکھ ہے۔‘
حادثے میں جان کی بازی ہارنے والے فاروق کی نماز جنازہ مانسہرہ میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد ان کے ماموں چن زیب نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ فاروق کے والد کارپیٹنر ہیں۔ ’یہ دو بھائی اور ایک بہن تھے۔ فاروق سب سے بڑا تھا۔ اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کنگ عبداللہ ہسپتال میں عارضی ملازمت حاصل کی تھی۔ جس کے بعد بھی یہ مستقل ملازمت کی تلاش میں تھا۔ اکثر مختلف جگہوں پر درخواستیں دیتا رہتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اینٹی نار کوٹیکس فورس میں جب بھرتیوں کے اشتہار آئے تو فاروق نے بھی اس کے لیے درخواست دی۔ ’وہ روزانہ دوڑ لگاتا تاکہ اس کا سٹیمنا بہتر ہو۔‘
فاروق کے ماموں کا کہنا تھا کہ بھرتی کے لیے جانے سے پہلے ’اس نے مجھے فون کیا تھا کہ میرے لیے دعا کریں کہ میں بھرتی ہو جاؤں۔ ’میں نے اس سے کہا کہ کرائے کے پیسے لے جاؤ تو اس نے جواب دیا کہ حیدر علی اپنی گاڑی لے کر جا رہا ہے اور وہ دیگر دوستوں کو بھی ساتھ لے جائے گا۔‘
فاروق کی والدہ جو اس کی شادی کی تیاریاں کر رہی تھی اپنے بیٹے کا جنازہ دیکھ کر بے ہوش ہوگئیں اور اس وقت وہ صدمے سے بے حال ہیں۔
حادثہ کیسے پیش آیا؟
اسلام آباد ٹریفک پولیس کے سیف سٹی کیمرہ کی رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی کو تیز رفتار لینڈ کروز نے بند اشارے پر ٹکر ماری جس سے وہ الٹتی ہوئی دور جا گری۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویڈیوز کے مشاہدے سے ظاہر ہوا ہے کہ غلطی لینڈ کروزر کی تھی کیونکہ اس کا سگنل بند تھا۔
رپورٹ کے مطابق لینڈ کروزر نے اس کے بعد ایک موٹر سائیکل کو بھی ٹکر ماری اور وہ بھی دور جا کر سڑک کے درمیان موجود سبزے والے حصے پر گری۔
حادثے کے مقام پر بائیں جانب موجود ایک کمیرے سے بنی واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بظاہر اشارہ بند ہونے پر مہران گاڑی سڑک کے درمیان سے سپیڈ لین کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کا رخ چوک کی جانب سے اسی دوران سپیڈ لین میں آنے والی تیز رفتار گاڑی اسے ٹکر مار دیتی ہے۔
حادثے کے بعد الزامات
واضح رہے کہ حادثے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں حادثے کے مقام پر کشمالہ طارق کے بیٹے ازلان کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو گاڑیوں کے پاس کھڑے ہیں تاہم ان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا وہ گاڑی چلا رہے تھے یا نہیں۔
پولیس کے تفتیشی افسر آصف خان کے مطابق حادثے کے بعد ایک ڈرائیور نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے گرفتاری دی تاہم پولیس نے انہیں حراست میں نہیں لیا ہے۔
ان کے بقول ’ابھی اس الزام کی تحقیقات جاری ہیں کہ آیا گاڑی کشمالہ طارق کا بیٹا چلا رہا تھا یا کہ ڈرائیور۔ ‘
آصف خان کا کہنا ہے کہ حادثے کہ وقت ایک سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی بھی سفید گاڑی کے ہمراہ تھی اور پولیس اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ گاڑی کون چلا رہا تھا سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کشمالہ طارق نے نجی ٹیلی وژن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی گاڑی بھی اس قافلے کے ساتھ موجود تھی جس میں وہ اور ان کے شوہر موجود تھے۔ تاہم ان کا بیٹا پچھلی گاڑی میں تھا۔ انھوں نے حادثے میں جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ حادثے کے بعد وہاں رکے تھے اور خود ایمبولینس منگوا کر زخمیوں کو ہسپتال بھیجا۔ انھوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کی کہ حادثے کے بعد ان کی گاڑیاں موقعے سے فرار ہو گئی تھیں۔
آخری فیس بک لائیو
حیدر علی عرف سونو خان اپنے چار دوستوں اذان مجید، انیس شکیل، فاروق احمد، ملک عادل کے ساتھ بہتر مستقبل کے خواب سجائے نوکری کے انٹرویو کے لیے مانسہرہ سے اسلام آباد آئے اور ابھی اپنی منزل کی طرف رواں ہی تھے کہ حیدر کو اسلام آباد کی سڑکوں کا نظارہ اتنا بھایا کہ انھوں فیس بک لائیو کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا کے دوستوں کو اپنے سفر کا حصہ بنا لیا۔
اس لائیو ویڈیو پر 'خیریت سے سفر کرو' کمنٹ کرتے دوست یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ویڈیو حیدر کی زندگی کی آخری ویڈیو ثابت ہوگی اور اس ویڈیو کے اختتام کے چند لمحے بعد ہی حیدر کی گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی۔
پاکستان میں ٹریفک حادثات اور وی آئی پی کلچر پر بحث:
اس حادثے کے بعد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد بہت سے سوشل میڈیا صارفین پاکستان میں وی آئی پی کلچر پر بحث کرتے نظر آئے۔ صارفین کی جانب سے سرکاری پروٹوکول میں شامل گاڑیوں کا بے دریغ استعمال اور ان کے ڈرائیورز کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سوال اٹھائے گئے۔
ایک صارف ہیما بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں طاقتور ہی برتر ہے‘ جبکہ ارسلان کا کہنا ہے کہ ’اس حادثے پر خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک کہ امرا کوئی بھی جرم کر کے بچ سکتے ہیں۔‘
جبکہ ایک صارف نے سوال اٹھایا کہ ’سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت شہر میں اتنے سی سی کیمرہ لگائے گئے ہیں لیکن اب تک ایک بھی کیمرے کے ذریعے یہ پتہ نہیں لگایا جا سکا کہ آیا اس حادثے میں ملوث گاڑیوں کو کون چلا رہا تھا۔‘
جبکہ ماریہ چودرھری نے پوچھا کہ (قصوروار) کو ’قانون کے مطابق سزا ملے گی یا معاملے کو ایک بار پھر رفع دفع کر دیا جائے گا؟
Source: BBC Urdu