Resolution Against Pakistan's Blasphemy Laws in EU Parliament, Pakistan's GSP+ Status At Risk
Posted By: Saadat, May 01, 2021 | 07:09:54Resolution Against Pakistan's Blasphemy Laws in EU Parliament, Pakistan's GSP+ Status At Risk
پاکستان کو یورپ میں حاصل تجارتی مراعات ’خطرے‘ میں
پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حوالے سے یورپی کمیشن اور یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کی عارضی طور پر معطلی کے طریقہ کار پر غور کریں۔
یورپی پارلیمان میں توہین مذہب کے قوانین کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس سٹیٹس پر نظرثانی کی قرار داد منظور کر لی گئی ہے۔
پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حوالے سے یورپی کمیشن اور یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے سٹیٹس پر فوری طور پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کی عارضی طور پر معطلی کے طریقہ کار پر غور کریں اور اس کی رپورٹ یورپی پارلیمان میں جلد سے جلد پیش کریں۔
جی ایس پی پلس سٹیٹس کے تحت غیر یورپی ممالک کو یورپ برآمد کی جانے والی منتخب اشیا پر ڈیوٹی سے استثنی حاصل ہوتا ہے۔
یورپی پارلیمان میں پاکستان میں فرانس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو بھی ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے۔
قرار داد میں پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کے تحت اقلیتوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی تنظیموں پر آن لائن اور آف لائن بڑھتے ہوئے مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
اس قرارداد کے شریک مصنف اور سویڈن سے یورپی پارلیمان کے رکن چارلی ویمرز کا اپنی تقریر کے دوران کہنا تھا کہ ’پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان غلط الزامات لگانے والوں سے اپنے شہریوں کا دفاع کرنے کی بجائے پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کو ہولو کاسٹ اور نسل کشی کے انکار کے مترادف قرار دیتے ہیں۔‘
Success! EU Parliament wants to use trade policy to pressure Pakistan: “review Pakistan’s eligibility for GSP+ status in the light of current events.”
— Charlie Weimers MEP (@weimers) April 29, 2021
Today’s adopted resolution that I co-authored: https://t.co/CpIqg16NIO https://t.co/cybNJMmrPO
یورپی پارلیمان میں منظور کی جانے والی قرارداد میں پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کے مسلسل استعمال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ قوانین ’پاکستان میں مذہبی تقسیم کو بڑھانے، عدم برداشت کے ماحول کو پروان چڑھانے، تشدد اور تعصب کی بنیاد بن رہے ہیں۔‘
اس کے علاوہ قرار داد میں زور دیا گیا ہے کہ یہ قوانین بین الااقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق ’نہیں‘ ہیں جبکہ یہ ملک میں موجود غیر محفوظ گروہوں جن میں شیعہ، احمدی، ہندو اور مسیحی شامل ہیں کو ’نشانہ‘ بنانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
قرار داد میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان قوانین پر نظرثانی کرنے اور ان کا استعمال روکتے ہوئے انہیں ختم کرے جبکہ توہین مذہب کے مقدمات میں دفاعی گواہوں اور وکلا سمیت ججز کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
یورپی پارلیمان میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ پینل کوڈ کی شقوں 295 بی اور سی کو ختم کر دے تاکہ سوچ، مذہب اور اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھا جا سکے جبکہ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ توہین مذہب کے مقدمات کو سال 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے جانے کے حوالے سے بھی ایسی ترمیم کرے جس میں مبینہ توہین مذہب کے الزامات کا سامنے کرنے والے کو ضمانت کے مواقع میسر ہوں۔
حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ’تعصب‘ اور ’تشدد‘ کی غیر مشروط مذمت کرتے ہوئے توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے موثر طریقہ کار بھی وضع کرے۔
قرار داد کے متن کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کو ذاتی یا معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ قرار داد میں پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان کے اس بیان کو بھی مسترد کر دیا گیا جس میں انہوں نے توہین مذہب میں ملوث افراد کا ’سر قلم‘ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
علاوہ ازیں قرار داد میں یورپی یونین اور یورپی سفارت کاروں سے شگفتہ کوثر اور شفقت ایمونوئیل کے کیس میں ہر ممکن مدد کرنے پر زور بھی دیا گیا ہے جبکہ شفقت ایمونوئیل، شگفتہ کوثر ان کے وکیل سیف الملوک کو ہنگامی ویزا جاری کرنے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ قرار داد کے متن میں خواتین، اقلیتوں، دانشوروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور صحافیوں پر ہونے والے ’حملوں‘ پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان سے ان کی حفاظت کو یقینی بنانے اور ان حملوں کی تحقیقات سمیت ان میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کا ردعمل
دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعے کو اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ یورپی پارلیمان میں ہونے والی بحث پاکستان اور مسلم دنیا میں توہین رسالت اور اس سے جڑی مذہبی حساسیت کے صیح فہم نہ ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یورپی پارلیمان میں پاکستان کے عدالتی نظام اور ملکی قوانین کے بارے میں غیر ضروری تبصرے پر افسوس ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت، فعال سول سوسائٹی، آزاد میڈیا اور خودمختار عدلیہ موجود ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ تمام شہریوں کے بلاامتیاز انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ ’اپنی اقلیتوں پر فخر ہے جن کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور اقلیتوں کو آئین کے مطابق ان کی بنیادی آزادیوں کا مکمل تحفظ ہے۔‘
ترجمان دفترخارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اور یورپی یونین میں دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کے کئی طریقہ کار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت، قانون کی حکمرانی، گورننس اور انسانی حقوق پر بات ہوسکتی ہے۔
Source