EU Resolution: Pakistan Will Have To Suffer Economically If Pakistan Doesn't Change Blasphemy Laws
Posted By: Muzamil, May 02, 2021 | 06:43:30EU Resolution: Pakistan Will Have To Suffer Economically If Pakistan Doesn't Change Blasphemy Laws
یورپی پارلیمان میں پاکستان سے متعلق قرارداد: ’گھر کی صفائی نہ کی تو پاکستان کو سفارتی اور معاشی مسائل بھگتنا ہوں گے‘
یورپی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سنہ 2014 میں پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔
یورپی پارلیمان میں جمعرات کو پیش کی جانے والی اس قرارداد جس کے حق میں 662 اور مخالفت میں صرف تین ووٹ ڈالے گئے، اس میں پاکستان کی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ توہین رسالت کے قانون کی دفعات 295 سی اور بی کو ختم کرے۔
اس قرارداد میں حکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون میں بھی ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نہ کی جائے اور توہین رسالت کے مقدمات میں ملزمان کو ضمانتیں مل سکیں۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ یورپی یونین کی پاکستان مخالف قرارداد کا معاون سپانسر ایک ایسی جماعت کا ممبر ہے جسے سویڈن کے وزیراعظم نے ’ایک ایجنڈے والی نیو فاشسٹ پارٹی‘ قرار دیا تھا جس کی ’جڑیں نازی اور نسل پرستانہ‘ ہیں۔
یورپی پارلیمان میں پیش کی گئی قرارداد سویڈن سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن چارلی ویمرز نے مرتب کی ہے۔
خیال رہے کہ جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی یورپی یونین کی منڈیوں میں آنے والی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔
پاکستان سے متعلق یورپی پارلیمان کی قرارداد
یورپی پارلیمان میں منظور ہونے والی قرارداد میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ پاکستان میں لاگو توہین رسالت کے قانون کے تحت ابھی تک کسی بھی مجرم کو موت کی سزا نہیں دی گئی ہے، کہا گیا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے ’اقلیتوں کو خوف زدہ‘ کیا جاتا ہے ان پر ’تشدد کیا جاتا ہے‘ اور ’توہین رسالت کا الزام لگا کر اقلیتی برادری کے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے۔‘
قرارداد میں پاکستان میں فرانس کی حکومت کے خلاف حالیہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کرنے سے متعلق قرارداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے فرانس میں ایک سکول ٹیچر پر ہونے والے حملے کے ردعمل میں کیے گئے حکومتی اقدامات پر تنقیدی بیانات میں اضافہ ہوا ہے۔
قرارداد میں مذہبی و سیاسی کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس جماعت کی طرف سے تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیے۔
اس میں فرانس کے خلاف پاکستان میں ہونے والے مظاہروں اور 'حملوں' کو ناقابل قبول قرار دیا گیا ہے اور پاکستان میں پائے جانے والے ’فرانس مخالف جذبات‘ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جس کے باعث فرانسیسی شہریوں اور فرانسیسی کمپنیوں کو عارضی طور پر پاکستان سے نکلنا یا محتاط رہنا پڑا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے کالعدم ٹی ایل پی کے مطالبے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کے بعد جماعت کی قیادت نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یورپی یونین کی قرارداد میں خصوصی طور جس توہین مذہب کے کیس پر خدشے کا اظہار کیا گیا وہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کا ہے۔ قرارداد میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کے تحت سنائی گئی موت کی سزا کو واپس لے کر ان کو فوری طور پر رہا کریں۔
شفقت ایمینول اور شگفتہ کوثر کو سنہ 2014 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ انھیں تمام طبی سہولیات مہیا کریں۔
قرارداد میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے ایک حالیہ فیصلے کو خوش آمدید کہا گیا ہے جس میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کو موت کی سزا دینے پر پابندی لگا دی ہے۔
یورپی یونین نے پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر موقف کا اعادہ کرتے ہوئے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ موت کی سزا پانے والے تمام مجرموں کی سزا ختم کرے اور ان کو صاف اور شفاف انصاف مہیا کیا جائے۔
پاکستان پر کیا اثرات پڑیں گے؟
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بی بی سی کو بتایا کہ 1997 کے بعد پاکستان کی ریاست کی اندرونی نوعیت بدلتی چلی گئی اور جو مذہبی انتہا پسندی بڑھائی گئی ہے وہ اب نصاب سے لے کر ہر طرف نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔
پارلیمنٹ میں فرانس کے سفیر کی بے دخلی سے متعلق قرارداد پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'جو سانپ پالے ہوئے تھے اب وہ کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں۔'
اس معاملے کا حل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اب ہمیں اپنا قبلہ سیدھا کرنے کی ضرورت ہے۔ اب گھر کی صفائی کا وقت ہے۔'
ان کے مطابق گھر کی صفائی نہ کی گئی تو پاکستان کو سفارتی، سیاسی اور معاشی مسائل بھگتنا ہوں گے
ان کے مطابق جس طرح تحریک لبیک کو راتوں رات بنایا گیا اور پھر قوم کے سر پر تھوپا گیا وہ سب کے سامنے ہے اور ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے ایسی تنظیموں کی پذیرائی کی اور سڑک پر کھڑے ہو کر ان کے کارکنان کے درمیان پیسے بانٹے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق پاکستان کی 25 فیصد ایکسپورٹ یورپی ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور اگر یہ ممالک پاکستان کو جی ایس پی پلس کا دیا گیا رتبہ واپس لے لیں تو یہ پاکستان کی معیشیت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ ان کے خیال میں جس طرح پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں تو اس سے ایک طرف پاکستان اقوام عالم میں تنہا کھڑا ہو گا اور دوسری طرف اس کی معیشیت بھی مزید گرواٹ کی طرف جائے گی۔
توہین رسالت کے قوانین میں ترامیم کے بارے میں سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ایم ضیا الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند عناصر کے دباؤ کی وجہ سے حکومت کے لیے کوئی ایسی ترمیم کرنا ممکن نہیں ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ حکومت سیاسی اور معاشی لحاظ سے اس قدر کمزور ہے کہ وہ کسی قسم کی کوئی قانونی اصلاحات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
قومی اسمبلی میں فرانس کے سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے کے حوالے سے جو قرارداد پیش کی گئی تھی اس کے بارے میں ایم ضیا الدین کا کہنا ہے کہ وہ قرارداد پیش تو کی گئی لیکن اس پر ابھی کوئی بحث نہیں کروائی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس قرارداد کا مقصد بھی صرف پیش کیا جانا تھا اس پر بحث کروانا نہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دینا مسئلے کا حل نہیں کیونکہ مغرب اس معاملے کو اظہارِ رائے کی آزادی سے جوڑتا ہے۔ تاہم چند ہی گھنٹے بعد وزیرِ داخلہ نے مذاکرات کے بعد فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے سے متعلق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا اعلان کیا تھا اور اسے منظور کر لیا گیا تھا۔
ٹی ایل پی کے ساتھ حکومت کی طرف سے کیے گئے معاہدے پر ایم ضیا الدین کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کا معاہدہ کرنے کا ’فیصلہ درست نہیں تھا‘۔
اس سارے معاملے میں فوج کے کردار پر انھوں نے کہا کہ ’فوج نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور وہ اس معاملے پر بات نہیں کر رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ’فوج کھل کر حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی‘ اور ان عناصر کو ’شٹ اپ‘ کال دینے سے گریز کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ اپریل میں ٹی ایل پی کے پُرتشدد مظاہروں کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج کو طلب کیا گیا تھا۔
پاکستان کی تجارت اور جی ایس پی پلس کے فوائد
یورپی یونین کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو سنہ 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ دیے جانے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے ملکوں میں تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی سروے سال 2019-20 کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔
اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27 ملکوں میں بغیر کسی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔
یورپی یونین میں یہ سہولت میسر آنے کے بعد پاکستان کی برآمدات میں کئی سو کروڑ کا اضافہ ہوا۔ سنہ 2013-14 کے مالی سال میں پاکستان کی برآمدات 11,960.59 ملین ڈالر تھیں جو سنہ 2018-19 میں 14,158.29 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔
یورپی یونین کو پاکستان امریکہ سے دگنا مال فروخت کرتا ہے جبکہ چین کے مقابلے میں یہ تین گنا زیادہ ہے۔
یورپی یونین کو بیچے جانے والے مال میں سب سے زیادہ مقدار ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی ہے۔ پاکستان سے یورپی یونین برآمد کے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں بھی یورپی یونین کا ایک نمایاں حصہ ہے اور پاکستان کی مجموعی درآمدات میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ یورپی یونین سے پاکستان زیادہ تر بجلی کے آلات، مواصلات کا ساز و سامان، کیمیکل اور ادویات خریدتا ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کا جی ایس پی کا درجہ ختم کیے جانے کی صورت پر ملک کو ہونے والے نقصان کے بارے میں سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ایم ضیا الدین کا کہنا تھا کہ اس سے بہت زیادہ نقصان ہو گا جو موجودہ معاشی حالت میں برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ پاکستان کی درآمدات کی بڑی منڈیوں میں سے ہیں جن کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
ان کے مطابق چین میں معاشی ترقی اور ان کی عوام کی قوت خرید میں اضافے کے باوجود پاکستانی اشیا کی چین کو برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا ہے۔
کاروبار اور معاشی امور کے صحافی خرم حسین نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ ’نان بائنڈنگ‘ قرارداد ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ اس سے نظرثانی پر عملدرآمد کیا جائے۔
پاکستان کو یہ درجہ کب ملا
یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو جنرلائزڈ سکیم آف پریفیرینسز (جی ایس پی) پلس کا درجہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں سنہ 2013 میں دیا گیا تھا اور اس پر عملدرآمد یکم جنوری 2014 سے شروع ہوا تھا۔
یورپی یونین کی منڈیوں میں جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔ یونین کی ویب سائٹ کے مطابق اس سے 'ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی اقدار اور اصولوں بشمول مزدوروں کے حقوق اور انسانی حقوق کے تحت غربت مٹانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے۔'
اس سکیم کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں بنیادی جی ایس پی، جی ایس پی پلس، اور ایوری تھنگ بٹ آرمز (اسلحے کے علاوہ سب کچھ) شامل ہیں۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا گیا تھا جس کے تحت کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کی ایسی دو تہائی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے، اُن پر سے ڈیوٹی کو کم کر کے صفر فیصد پر لے آیا جاتا ہے۔
تاہم یہ ترجیحی تجارتی درجہ اپنی چند شرائط رکھتا ہے۔
اگر کسی ملک کو یہ درجہ دیا گیا ہے تو اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور طرزِ حکمرانی میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کا نفاذ کرنا ہوتا ہے۔
ماضی میں اس حوالے سے پاکستان کی کارکردگی پر یورپی یونین کی جانب سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم معاملات میں سے ایک پاکستان میں پھانسی کی سزا پر عملدرآمد دوبارہ شروع کیا جانا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد کو ملتوی کیا تھا تاکہ یورپی یونین سے ترجیحی تجارت کا درجہ حاصل کیا جا سکے، تاہم پشاور میں آرمی پبلک سکول پر 2014 میں طالبان کے حملے میں بچوں سمیت 144 افراد کے ہلاک ہونے کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت نے پھانسی کی سزا بحال کر دی تھی۔
یورپی یونین کی جانب سے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پھانسیوں کی سزا پر عملدرآمد سے پاکستان انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے ممالک کی فہرست میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔
اس کے علاوہ یورپی یونین کی جانب سے گاہے گاہے پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
Source: BBC Urdu