Peshawar Police Arrests Two Men For Waving Afghan Taliban Flags
Posted By: Saif, July 12, 2021 | 11:44:29Peshawar Police Arrests Two Men For Waving Afghan Taliban Flags
پشاور میں ایک ریلی کے دوران افغان طالبان کا پرچم لہرانے اور نعرہ بازی کرنے کے الزام میں پولیس نے مقدمہ درج کر کے دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ ایک مدرسہ بھی سیل کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ سفید پرچم لہرانے کے واقعہ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یہ مقدمہ پولیس تھانہ ریگی میں درج کیا گیا ہے۔
پشاور میں افغان طالبان کیسے؟
یہ واقعہ سنیچر اور جمعہ کی درمیانی شب پشاور کے بورڈ بازار کے قریب پیش آیا۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں افغان طالبان کے سفید پرچم اٹھائے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں سوار افراد نعرے لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
پولیس رپورٹ کے مطابق نیم شب کے وقت ریگی قبرستان میں ہجوم دیکھا گیا جو سفید پرچم اٹھائے ہوئے تھا اور کسی کی تدفین کی جا رہی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے ایک رکن عبدالرشید افغانستان میں ہلاک ہو گئے تھے جن کی میت پاک افغان سرحد پر طورخم کے راستے پشاور لائی گئی۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ جنازے میں کافی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوگئے تھے اور انھوں نے افغان طالبان کے سفید پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ ایسی اطلاع بھی ہے کہ میت طورخم سرحد سے قافلے کی شکل میں پشار کے بورڈ بازار کے قریب راحت آباد سے ریگی قبرستان لائی گئی۔ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے عبدالرشید پشاور کے مولانا مفتی معروف کے بھتیجے تھے اور مولانا مفتی اسی علاقے ریگی کے رہائشی ہیں۔ پولیس کے مطابق تدفین کے بعد تمام افراد واپس چلے گئے تھے۔
پولیس نے ایک مدرسے کو سیل کر دیا ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق یہ مدرسہ مفتی معروف کا ہے جو مدرسہ احیا العلوم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
مفتی معروف خان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جمعیت علماء اسلام پی کے 73 کے امیر ہیں۔ ان کے ترجمان نے بتایا ہے کہ مفتی معروف مسلح جدوجہد کے حامی نہیں ہیں بلکہ وہ جمہوری طریقے سے اسلام کی بالادستی کے حق میں ہیں۔
عبدالرشید کون تھے اس بارے میں کوئی واضح معلومات نہیں ہیں تاہم پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ چارسدہ کے مولانا محمد الیاس کے شاگرد رہ چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز
اس ریلی کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئیں جن میں لوگوں کے ہجوم کو پشاور کے بورڈ بازار اور جمرود روڈ سے گزرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ حیران کن بات ہے کہ طالبان خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ظاہر ہو گئے ہیں۔
ٹوئٹر پر زبی بایرکزئی نے لکھا ہے کہ طالبان کی ریلی پشاور کے مرکز میں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان کھلے عام صوبائی دارالحکومت میں اکٹھے ہو جائیں؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ ان کو ریاست کی حمایت حاصل ہے، اگر نہیں تو یہ لوگ جیل میں کیوں نہیں ہیں؟ اور کس اختیار سے یہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے؟
ٹوئٹر پر یہ سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ آخر کیسے یہ لوگ پاک افغان سرحد عبور کر کے یہاں پہنچے ہیں، کیونکہ سرحد تو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے۔
یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی خاطر صرف میت یا شدید بیمار افراد کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو ایسے حالات میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کیسے ان کے ہمراہ آ گئے۔
اس ریلی کے بعد گزشتہ روز سینیئر سپرنٹینڈنٹ پولیس یاسر آفریدی کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی ٰضلع خیبر میں پولیس حکام کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے جون کے مہینے میں بھی سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ضلع اورکزئی میں صبغت اللہ نامی شخص کی میت پہنچی تھی اور جنازے میں افغان طالبان کے پرچم نظر آ رہے تھے۔ یہ واقعہ 29 جون کا بتایا گیا تھا۔
تجزیہ کار عامر رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ امر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اگر یہ افغان ہیں اور افغان طالبان کی حمایت میں نکلے ہیں تو یہ ایک بات ہے، لیکن عالمی سطح پر یہ پاکستان کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں اس طرح کھل عام افغان طالبان کی حمایت میں ریلی کا نکلنا اور نعرہ بازی کرنا، پاکستان کی پالیسی کے خلاف ہے اور یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے باعث تشویش ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنا ایک موقف اور ایک پالیسی رکھتا ہے اور یہ سب کچھ اس کے منافی نظر آتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی پیشرفت جس طرح سے جاری ہے اور طالبان کے حامی افغانستان میں جس طرح اس خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اس کے اثرات پاکستان میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ وہ قوتیں جو افغان طالبان کی حامی رہی ہیں وہ اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔
اس کے برعکس وہ قوتین جو طالبان کی پالیسیوں کی مخالف ہیں وہ اس ساری صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خطے میں ایک مرتبہ پھر حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں جس طرح تشدد کے واقعات بڑھ گئے تھے اب ایک مرتبہ پھر حالات میں ایسی تبدیلی کی امکانات پائے جاتے ہیں۔
Source: BBC Urdu