Samaa Tv Aleem Khan Ke Hath Bik Gaya - Details By Tariq Mateen
Posted By: Samar, September 22, 2021 | 17:45:11Samaa Tv Aleem Khan Ke Hath Bik Gaya - Details By Tariq Mateen
Youtube
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے بورڈ کے ارکان نے بدھ کے روز اپنے اجلاس میں ملک کے ایک بڑے نجی نیوز ٹیلی وژن چینل کو حکمران جماعت کے سینیئر صوبائی وزیر علیم خان کی کمپنی اور ان کی بیٹی کی ملکیت میں دینے کی منظوری دے دی ہے۔
یاد رہے کہ سما ٹی وی کے ذمے کروڑوں کے واجبات باقی ہیں اور پیمرا قوانین 2009 کے مطابق کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت کی منتقلی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام واجبات ادا نہیں کر دیے جاتے۔
دوسری جانب پیمرا کے 11 رکنی بورڈ میں سے ایک رکن فرح عظیم شاہ نے سما ٹی وی کو پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) رہنما اور پنجاب کے سینیئر صوبائی وزیر علیم خان کو فروخت کرنے کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ دیا ہے۔ فرح عظیم شاہ بلوچستان سے پیمرا کی رکن ہیں۔
بی بی سی کو سما نیوز کی فروخت کے معاملات سے باخبر ایک سے زیادہ سرکاری عہدیداروں نے ایسی تفصیلات بتائی ہیں جن سے اشارہ ملتا ہے کہ وفاقی حکومت کی بعض اہم شخصیات مبینہ طور پر سرکاری افسران پر دباؤ ڈال کر اس سودے کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہتی تھیں۔
یاد رہے کہ علیم خان کی سما ٹی وی کو خریدنے کی خبر رواں برس ہی سامنے آئی تھی لیکن اس کی ملکیت سے متعلق پیمرا سے منظوری ہونی باقی تھی۔ اس چینل کی ملکیت علیم خان کی ریئل اسٹیٹ کمپنی پارک ویو لمیٹڈ اور ان کی بیٹی کے نام ہے۔
یہ معاملہ ہے کیا؟
پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر صوبائی وزیر علیم خان کی جانب سے خریدے گئے چینل سما ٹی وی کی سالانہ لائسنس فیس اور سالانہ ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی مد میں کروڑوں روپے کے واجبات باقی ہیں اور ان پر الزام ہے کہ وہ پیمرا پر ان واجبات کی ادائیگی کے بغیر ہی اس چینل کی ملکیت اور شیئرز کی منتقلی کے لیے وفاقی وزرا اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ذریعے چیئرمین پیمرا پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
بی بی سی نے ان سے متعدد بار رابطہ کرنے اور اس الزام پر ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی ہے تاحال ان سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پیمرا قوانین 2009 کے مطابق کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت کی منتقلی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام واجبات ادا نہیں کر دیے جاتے۔
بی بی سی کو ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری مبینہ طور پر چیئرمین پیمرا پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ سما ٹی وی کے واجبات کی ادائیگی کے بنا ہی اس کی ملکیت علیم خان کی کمپنی اور بیٹی کے نام منتقل کر دیں تاہم فواد چوہدری نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ پیمرا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کے چیئرمین کا عہدہ ایک آزادانہ حیثیت کا حامل ہے۔ قوانین کے مطابق پیمرا صرف انتظامی امور میں وفاقی وزرات اطلاعات و نشریات کو جوابدہ ہے اور باقی معاملات مثلاً چینلز کے لائسنس، واجبات، نشریات اور دیگر امور کے حوالے سے وہ خود مختار حیثیت رکھتا ہے۔
اختلافی نوٹ دینے والی رکن کا کیا کہنا ہے؟
پیمرا کے اس فیصلے کے خلاف بلوچستان سے پیمرا کی رکن فرح عظیم شاہ نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔
فرح عظیم شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اختلافی نوٹ ان بنیادوں پر دیا کہ پیمرا کو کم از کم بینک گارنٹی لینی چاہیے تھی کہ یہ پیسے ادا کیے جائیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے حلف لیے جانے کی سفارش کی تھی کہ 15 سالہ لائسنس (جو کچھ ہی مہینوں میں ختم ہونے والا ہے) کی دوبارہ تجدید کے لیے رولز کی پاسداری کی جائے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ لائسنس کی تجدید کے لیے چھ ماہ قبل درخواست دی جاتی ہے اور آخری سال کے بھی دو ماہ گزر چکے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سے پیمرا کو یہ فائدہ ہوتا کہ دوسرے چینلز کے لیے بھی مثال قائم ہوتی۔ فرح عظیم شاہ نے کہا علیم خان کی کمپنی پارک ویو لمیٹڈ جس کے نام یہ چینل اب کیا جا رہا ہے، اس پر پراپرٹی سے متعلق ایک مقدمہ تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ اس کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس کے بعد یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھیجا گیا جس کے بعد یہ معاملہ اب تک نیب میں زیر التوا ہے۔ اُن کے مطابق اُنھوں نے اختلافی نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ پارک ویو لمیٹڈ کے بارے میں وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ سے کلیئرنس لی جائے تاکہ پتا چلے کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ علیم خان پہلے بھی ویلیو ٹی وی کے بورڈ آف گورنرز میں ہیں جو اب چینل 24 بن چکا ہے اور یہ عہدہ اُن کے اپنے چینل کی ملکیت کے حساب سے متصادم ہے۔
ممبر پیمرا کا کہنا تھا کہ اُن کے اٹھائے گئے نکات پر حکام کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا تو اُنھوں نے اپنا اختلافی نوٹ لکھ کر پیش کر دیا۔
دباؤ ڈالنے کے الزامات
ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں چیئرمین پیمرا کو وفاقی وزیر اطلاعات اور دیگر اعلیٰ حکومتی شخصیات نے متعدد بار ملاقات کے لیے بلایا جس میں ان پر مبیبنہ طور پر سما ٹی وی کے ذمے واجبات کی ادائیگی کے بنا ہی ملکیت و سو فیصد شیئرز منتقل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔
بی بی سی نے اس الزام پر جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے رابطہ کیا تو انھوں نے چیئرمین پیمرا پر کسی بھی قسم کے دباؤ ڈالنے کی الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں پیمرا نے کون سی خلاف ورزی یا قوانین میں نرمی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر حکومت یا میں دباؤ ڈالتا تو پیمرا اس چینل کی منتقلی کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کرتا۔'
انھوں نے مزید کہا کہ اب تک اس معاملے میں ’کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور پیمرا ایک خود مختار اور آزاد ادارہ ہے۔ اگر پیمرا کی طرف سے کوئی کوتاہی کی گئی ہے تو اس کی نشاندہی پر تحقیقات ضرور کی جائیں گی۔‘
تاہم جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سے چیئرمین پیمرا سے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی انیکسی میں ہونے والی مبینہ ملاقات جس میں صوبائی وزیر علیم خان بھی موجود تھے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
بی بی سی کو ذرائع کے کیے گئے دعوے کے مطابق اس ملاقات میں مبینہ طور پر سما ٹی وی کے ایک اینکر معید جعفری بھی موجود تھے۔
بی بی سی نے جب اس سلسلے میں سما ٹی وی کے اینکر معید جعفری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں بات نہیں کر سکتے اور انھوں نے مزید تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔
بی بی سی نے سما ٹی وی کے ذمے واجبات اور اس کی ملکیت کی تبدیلی کے معاملے پر سما ٹی وی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نوید صدیقی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ابھی طے نہیں ہوا اور وہ اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔
بی بی سی کو موصول دستاویزات کے مطابق پیمرا بورڈ کے بدھ کو بلائے جانے والے اجلاس کے ایجنڈے میں ابتدائی طور پر جاگ براڈکاسٹنگ سسٹمز (سما ٹی وی) کی ملکیت کی منتقلی کا نکتہ شامل نہیں تھا تاہم پیمرا نے اس اجلاس کے لیے دوبارہ ایک ایجنڈا جاری کیا جس میں اس چینل کی ملکیت کے معاملے کو شامل کیا گیا۔
واجبات کتنے ہیں اور پیمرا کا کیا کہنا ہے؟
پیمرا قوانین کے تحت کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ذمے واجب الادا رقم ادا نہیں کی جاتی۔
سما ٹی وی کے شیئرز اور ملکیت کی منتقلی کے کیس میں ٹی وی چینل کے ذمے کروڑوں روپے کے یہ واجبات پیمرا پر مبینہ دباؤ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
بی بی سی کو حاصل دستاویزات کے مطابق سما ٹی وی کے ذمے سنہ 2017 سے سنہ 2020 تک کی سالانہ لائسنس فیس کی مد میں تقریباً ساڑھے 18 کروڑ روپے واجب الادا ہیں جبکہ سالانہ گروس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی مد میں سنہ 2007 میں چینل کے آغاز سے اب تک پیمرا قوانین کے تحت پانچ فیصد سالانہ کی مد میں بھی کروڑوں روپے واجب الادا ہیں۔
پیمرا ذرائع کے مطابق اگر سما ٹی وی اپنے سالانہ گروس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی فنانشل آڈٹ رپورٹس مہیا کرے تو سالانہ پانچ فیصد سے ساڑھے سات فیصد کے حساب سے یہ رقم 70 کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے۔ رکن پیمرا فرح عظیم شاہ نے بھی اپنے اختلافی نوٹ میں اس رقم کا ذکر کیا ہے اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چینل کے ذمے اس رقم کی تصدیق بھی کی ہے۔
واضح رہے کہ پیمرا قوانین کے مطابق پاکستان میں ہر لائسنس یافتہ چینل کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدن یعنی انیوئل گروس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو (آگار) کا پانچ سے ساڑھے سات فیصد پیمرا کو جمع کروائے۔
تاہم ملک کے تقریباً تمام چینلز نے آج تک پیمرا کو اس حوالے سے اپنی فنانشل آڈٹ رپورٹس جمع نہیں کروائیں۔
پیمرا نے اس ضمن میں ملک کے تقریباً تمام چینلز کو گذشتہ برس مارچ میں ایک شو کاز نوٹس جاری کیا تھا کہ وہ چینل کی ابتدا سے اپنے گراس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی فنانشل آڈٹ رپورٹس جمع کروائیں تاہم چینلز مالکان کی جانب سے اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث عواں برس 28 جولائی کو پیمرا نے ایک بار دوبارہ چینل مالکان کو شوکاز نوٹسز جاری کیے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں سالانہ گروس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی مد میں وصولی کا فیصلہ پیمرا کے حق میں ہو چکا ہے تاہم اب تک پیمرا اس ضمن میں چینل مالکان سے وصولی کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بی بی سی کو حاصل دستاویزات کے مطابق سما ٹی وی کے شیئرز اور ملکیت کی منتقلی کے لیے رواں برس مئی کے شروع میں پیمرا کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں سما ٹی وی کو صدیقی خاندان سے علیم خان کے خاندان کو منتقل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اس کے بعد پیمرا نے اس درخواست پر جواب دیتے ہوئے سما ٹی وی (جاگ براڈکاسٹنگ سسٹمز) کی انتظامیہ کو ایک خط لکھا جس میں اس چینل پر واجبات اور اس کی سالانہ آڈٹ رپورٹس میں سقم کے باعث سما ٹی وی کی انتظامیہ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے اور ان واجبات کی ادائیگی کے متعلق جواب جمع کروانے کے لیے کہا۔
پیمرا نے 27 اگست کو سما ٹی وی کو واجبات کی ادائیگی کا ایک نوٹس جاری کیا جس میں سنہ 2017 سے سنہ 2020 تک کی سالانہ لائسنس فیس کے 18 کروڑ 40 لاکھ اور تقریباً 56 ہزار کے واجبات کی ادائیگی کا کہا گیا۔
پیمرا کے اس نوٹس میں چینل کی طرف سالانہ گروس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کے واجبات شامل نہیں ہیں۔
اس نوٹس کے جواب میں سما ٹی وی انتظامیہ نے پیمرا کو لکھے گئے ایک جوابی خط میں مؤقف اپنایا کہ 'چینل کی مذکورہ مدت کی سالانہ لائسنس فیس جمع ہے اور پیمرا حکام سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔'
تاہم چینل انتظامیہ نے گروس ایڈورٹیزمنٹ کی مد میں عائد واجبات پر یہ مؤقف اپنایا ہے کہ یہ معاملہ تمام چینلز کا مشترکہ ہے لہٰذا اس کو تمام چینلز کے ساتھ دیکھا جائے اور اس کی ملکیت اور شیئرز کی منتقلی کے عمل کو اس سے مشروط نہ کیا جائے۔
تاہم پیمرا قوانین کے مطابق کسی چینل کے سو فیصد شیئرز کی منتقلی اور ملکیت میں تبدیلی سے قبل تمام طرح کے واجبات ادا ہونا لازمی ہیں اور اس کے لیے کسی معاملے کو مشترکہ طور پر دیکھا نہیں جا سکتا۔
پیمرا ذرائع بھی اس متعلق ہونے والی متعدد ملاقاتوں کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کہ پیمرا پر اس سلسلے پر کافی دباؤ ہے۔
پیمرا نے مبینہ طور پر اس دباؤ میں آ کر 14 ستمبر کو سما ٹی وی کے نئے اور پرانے ڈائریکٹرز کا اجلاس پیمرا ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا جس میں پیمرا حکام کے سامنے یہ حلف نامہ دیا گیا کہ چینل کی نئی انتظامیہ چینل پر واجب الادا کسی بھی قسم کے واجبات کی ذمہ دار ہوگی لہٰذا فی الوقت شیئرز کی منتقلی کو مکمل کیا جائے۔
اس ضمن میں جب پیمرا حکام سے رابطہ کیا گیا تو ڈی جی میڈیا اور آپریشنز محمد طاہر کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پیمرا اس کیس میں تمام تر قانونی تقاضے پورے کر رہا ہے اور کسی بھی قسم کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم قوانین کے تحت کارروائی کر رہے ہیں۔'
تاہم حکومتی دباؤ، گروس ایڈورٹیزمنٹ ریونیو کی فنانشل آڈٹ رپورٹس جمع نہ کروانے اور اس کی مد میں واجبات کی ادائیگی، یا شیڈول کے بنا ہی ان کمنگ آؤٹ گوئنگ ڈائریکٹرز کا اجلاس بلانے کی قانونی حیثیت، سما چینل کی انتظامیہ کی جانب سے تقریباً ساڑھے 18 کروڑ روپے کے واجبات کے نوٹس کو غلطی قرار دینے پر واپس لینے کے متعلق سوالات پر انھوں نے تاحال جواب نہیں دیا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سما ٹی وی کے ان کمنگ اور آؤٹ گوئنگ ڈائریکٹرز کی 14 ستمبر کو بلائی جانے والی میٹنگ کی شرائط پوری نہیں کی گئی ہیں کیونکہ چینل کے (سالانہ لائسنس فیس اور سالانہ انڈورٹیزمنٹ ریونیو کی مد میں) واجبات ابھی تک ادا نہیں کیے گئے۔
اس ضمن میں وفاقی وزیر اطلاعات سے جب سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'گروس ایڈورٹیزمنٹ کے معاملے میں تو تمام ٹی وی چینلز بند ہو جائیں گے، انھوں نے کہا کہ یہ معمولی معاملہ ہے اور پیمرا اس کو دیکھ لے گا۔'
Source: BBC Urdu