Khatam e Nabuwat clause in 'Nikah Nama' & reservations of Ahmadi Community - Benazir Shah's article
Posted By: Saif, December 11, 2021 | 11:40:26Khatam e Nabuwat clause in 'Nikah Nama' & reservations of Ahmadi Community - Benazir Shah's article
نکاح نامے میں ختم نبوت کا کالم شامل کرنے کی قرارداد: ’ہمارے لیے تھوڑی سی جگہ تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی‘
تحریر: بینظیر شاہ
'میں اس ملک میں ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ میں نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری ریاست ہم سے سوتیلا سلوک کرتی ہے۔ اگر اس ملک میں ہمارے لیے تھوڑی سی جگہ باقی تھی تو اب وہ بھی ختم ہو جائے گی۔' یہ کہنا ہے 29 سالہ وکیل محمود افتخار ظفر کا جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔
26 اکتوبر کو پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر نکاح نامے میں ختم نبوت کا کالم شامل کرنے کی قرارداد منظور کی۔ واضح رہے کہ ابھی اس قرارداد نے قانون کی شکل اختیار نہیں کی۔
نکاح نامے میں مجوزہ تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمود افتخار ظفر کا کہنا تھا کہ احمدی کمیونٹی کے لیے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
'اگر تھوڑی سی کوئی جگہ بچی تھی احمدی کمیونٹی کے لیے، اور ویسے بھی ہم کوئی دو لاکھ کے قریب لوگ بچے ہیں اس ملک میں، تو اب وہ بھی ختم ہو جائے گی۔اس سے ہماری کیمونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور بیانات میں مزید اضافہ ہوگا۔'
پنجاب اسمبلی کی منظور کردہ قرار دار میں کیا کہا گیا؟
بی بی سی کو موصول ہونے والی اس قرارداد کے متن کے مطابق کہا گیا ہے کہ 'پنجاب اسمبلی کا یہ ایوان حکومت پنجاب سے اس امر کا مطالبہ کرتا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم (قادیانی، احمدی وغیرہ) میں فرق واضح کرنے کے لیے نادرا اور پاسپورٹ فارم میں مندرج حلف نامے کی طرز پر مسلم فیملی لاز آرڈیننس انیس سو اکسٹھ کے تحت وضع کیے ہوئے قوائد کے قاعدہ نمبر آٹھ اور دس کے تحت مجوزہ نکاح نامہ فارم میں بھی ختم نبوت کا مندرجہ ذیل حلف نامے کے ساتھ کالم شامل کیا جائے۔'
واضح رہے کہ پاکستان میں پاسپورٹ بنوانے کے لیے بھی اس حلف نامے پر دستخط کرنا ہوتے ہیں جس کی وجہ پاکستان میں 1974 کی وہ آئینی ترمیم ہے جس کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔
'شادی کے وقت چکمہ دیا جاتا ہے'
اس قرارداد کے محرکین میں مسلم لیگ ق کی رکن پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر، باسمہ چوہدری اور مسلم لیگ ن کے محمد الیاس چنیوٹی شامل ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رکن پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر کا کہنا تھا کہ چند ممبران اسمبلی کو ایسی شکایات موصول ہو رہی تھیں جن کے مطابق مسلمان خاندانوں کو شادی کے موقع پر ’قادیانیوں‘ کی جانب سے مسلمان ہونے کا دھوکا دیا گیا۔
بی بی سی اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے خدیجہ عمر کا کہنا تھا کہ 'بہت سے لوگ شادیاں کر رہے ہیں لیکن انہیں اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ جس سے وہ شادی کرنے لگے ہیں اس کا تعلق قادیانی کمیونٹی سے ہے۔' ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔'
خدیجہ عمر کے مطابق اسمبلی میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی جانب سے بھی قرارداد کے حق میں ایک تقریر کی گئی جس میں ایسی شکایات موصول ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
'لوگ غلط شناختی کارڈ بنوا لیتے ہیں'
جب خدیجہ عمر سے دریافت کیا گیا کہ کیا ان کے پاس ایسے افراد کی تعداد کا ڈیٹا موجود ہے جنہیں شادی کے وقت شناخت کا دھوکا دیا گیا ہو تو ان کا کہنا تھا کہ 'نہیں، ہمارے پاس اس سلسلے میں کوئی حتمی ڈیٹا تو نہیں البتہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اس کا شکار ہوچکے ہیں'۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کالم کو نکاح نامے میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ قومی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے ایسا حلف لازمی ہوتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ لوگ غلط شناختی کارڈ بھی بنوا لیتے ہیں۔
بی بی سی اردو نے جب ڈائریکٹر جنرل پارلیمانی امور و ریسرچ عنایت اللہ لک سے ایسی شکایات کے ریکارڈ کی دستیابی کے لئے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے بھی لا علمی کا اظہار کیا گیا۔
انھوں نے کہا: ’نہیں میرے دفتر میں ایسا کوئی ریکارڈ نہیں۔ میرے علم میں نہیں ہے۔‘
نکاح نامے میں اضافی کالم کی شرط کا اطلاق کیسے ہو گا؟
ممبر پنجاب اسمبلی الیاس چنیوٹی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد اس وقت پنجاب چیف سیکرٹری کے پاس ہے جہاں سے اسے پنجاب کابینہ سے منظوری کے لئے بھیجا جائے گا۔
'کابینہ کے پاس اس کی توثیق کے لیے تین ماہ کا وقت ہو گا اور وہاں سے منظوری کے بعد اس کا اطلاق 11 کروڑ آبادی کے حامل صوبے میں ہو جائے گا۔'
الیاس چنیوٹی نے مزید کہا کہ اس قرارداد کی ایک ایک کاپی صدر اور وزیراعظم کی اطلاع کے لیے بھی بھجوا دی گئی ہیں۔ الیاس چنیوٹی کا بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ ایسی ہی ایک قرارداد خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی پاس ہو چکی ہے۔
لیکن اس قرارداد کو قانون کی شکل کیسے دی جائے گی؟ اس سوال پر ابہام موجود ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل رضا علی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا مسلم فیملی آرڈیننس 1961 میں بھی ترمیم کی جاتی ہے کیونکہ ایکٹ اور اس کے قوانین نکاح کے طریقہ کار کو بیان کرتے ہیں۔'
رضا علی نے کہا کہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ دلہا، دلہن اور گواہان سے الگ الگ حلف نامہ لے لیا جائے کہ وہ عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح سے نکاح کے اندراج میں مزید ’بیوروکریٹک‘ رکاوٹ ضرور پیدا ہو جائے گی۔
'ایسے فیصلوں کے دور رس نتائج پر غور کرنا چاہیئے'
جماعت احمدیہ پاکستان کے ایک عہدے دار عامر محمود نے نکاح نامے میں اضافی کالم کی قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ احمدی کمیونیٹی کے نکاح نامے الگ ہوتے ہیں لیکن قانون سازوں کو ایسے فیصلوں کے معاشرے میں برداشت کے حوالے سے دور رس نتائج پر ضرور غور کرنا چاہئے۔
عامر محمود کا کہنا تھا کہ 'مذہب کے نام پر جو بڑھتی ہوئی قانون سازی ہے اس سے معاشرے کا ایک خاص رخ متعین کیا جا رہا ہے۔ ہمارے قانون سازوں کو ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ سوسائٹی کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔'
جب ان سے اس حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں بھی ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں احمدی کمیونیٹی کی جانب سے شادی کے وقت دروغ گوئی سے کام لیا جاتا ہے تو اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں عام طور پر دونوں خاندان شادی سے پہلے تحقیقات کرتے ہیں۔'
'اب تو ہمیں عادت سی ہو گئی ہے'
دوسری جانب احمدی برادری سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ ان کی کمیونٹی میں یہ نکاح نامے 1974 کے بعد سے استعمال ہی نہیں ہو رہے ہیں۔
'اس کے باوجود یہ نئے قواعد ہمیں متاثر کریں گے۔ یہ ریاست کے اسی سلسلے کی کڑی ہیں جس میں ہماری کمیونٹی کے خلاف نفرت پر مبنی مہم کا سلسلہ جاری ہے، اور اب تو ہمیں اس کی عادت سے ہو گئی ہے۔'
'ہمیں ہر لمحہ چوکنا رہنا ہوتا ہے، اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ہم کب کیا کہہ رہے ہیں یا کیا کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حالات میں کوئی بہتری نہیں آ رہی، بس بگڑتے جا رہے ہیں۔'
29 سالہ وکیل محمود افتخار ظفر کا ماننا ہے کہ نکاح نامے میں ختم نبوت کا کالم شامل کرنے سے ان کی کمینوٹی کو مزید علیحدہ کر دیا جائے گا۔
محمود افتخار ظفر کا کہنا ہے کہ جب وہ 18 سال کے تھے اور نادرا سے شناختی کارڈ لینے گئے، تو 'وہ تجربہ میرے لیے بے حد تکلیف دہ تھا۔ پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ ہم مختلف ہیں۔ مجھے لگا کہ ہمیں ذاتی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔'
بشکریہ: بی بی سی اردو