Ambreen Fatima's shocking article against her husband Ahmad Noorani
Posted By: Muzamil, December 15, 2021 | 18:35:28Ambreen Fatima's shocking article against her husband Ahmad Noorani
میں نے تو خیر اعتماد کیا، بچوں کا کیا جرم ہے؟ ۔۔ عنبرین فاطمہ
بطور صحافی اور ایک عام انسان میرے لیے پچھلے چند ہفتے زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ قاتلانہ حملے کے بعد ایک طرف اپنی اور بچوں کی جان کی فکر تو دوسری طرف اپنے رشتے کے بارے میں لوگوں کو صفائیاں دینا۔ یہ سب اس انسان کے لیے جس کے لیے میں نے دوسری بیوی بننا بھی گوارا کیا، شادی کے بعد اس کی مسلسل بے رخی جھیلی، اس کی لاتعلقی سے تنگ آ کر حمل کے دوران اپنی جان لینے کی کوشش تک کی۔
میرے اوپر حملہ ہوا تو جیسے میرے شوہر کو میرے خلاف زہر اگلنے کا موقع مل گیا ہو۔ دو دودھ پیتے بچوں کی شادی شدہ ماں کے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا اور اسے ایک حساس ادارے کی ایجنٹ بتایا گیا، اس پر قاتلانہ حملے کو حساس ادارے کی سازش کہا گیا۔ الزامات کی ایسی بارش کی گئی کہ مشکلات کی شکار عورت کا جینا مشکل کر دیا گیا۔ ایک مرد نے جو کہا، باقی مردوں نے یقین کر کے پوری شدت کے ساتھ ایک بے قصور اور کمزور عورت کو خوب رسوا کیا، کیونکہ یہی ہمارے معاشرے کا رواج ہے کہ عورت کے سامنے ہمیشہ مرد ہی سچا ہے چاہے وہ بیوی کو بے یارومددگار اور بچوں کو لاوارث ہی کیوں چھوڑ جائے، اپنے نومولود بچے کو دیکھنا تک گوارا نہ کرے۔
دوہری مصیبت میں پھنسی اس عورت نے بیرون ملک بہن کے پاس جا کر سانس لینے کو ترجیح دی تو اتنی شدت سے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا کہ مجھ پر ہوئے حملے سے زیادہ میرا نکاح اور طلاق اہم ہو گئی۔ افسوس یہ کہ میرے شوہر نے تو کسی مقصد کے تحت طلاق یافتہ، حساس ادارے کی ایجنٹ کہا لیکن اس کے دوستوں نے جس طرح سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اس کے جھوٹ پر اعتبار کیا اور میرے خلاف مہم میں حصہ لیا اس کو دیکھ کر میری نظر میں ان کے اپنے کردار مشکوک ہو گئے ہیں۔ وہ مرد و خواتین جو عورتوں کے حقوق پر بھاشن دیتے نہیں تھکتے، ان میں سے کسی نے اس شخص سے یہ تک پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ بھائی صاحب طلاق ہو چکی ہے تو طلاق نامہ کہاں ہے؟ ہر خبر کے ثبوت پاس رکھنے کا دعویٰ کرنے والے سے یہ نہیں پوچھا کہ میرے حساس ادارے کی ایجنٹ ہونے کا ثبوت کہاں ہے؟ کچھ خواتین اینکرز نے فون پر تو مجھ سے اصل کہانی تو سن لی لیکن سوشل میڈیا پر سچ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ان ساتھیوں سے یہی کہوں گی کہ جب آپ کسی بات کی حقیقت جانتے ہوں تو کسی کا ”ذاتی مسئلہ“ کہہ کر آگے نکل جانا آپ کے بزدل ہونے کی دلیل ہے۔ ان رویوں نے سوسائٹی میں موجود فرق اور پاور کی اہمیت کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔ مردوں کی اس سوسائٹی میں عورتوں کو عورت کی سپورٹ میں کھڑے ہونا یا نہ ہونے پر بھی سوالیہ نشان تو ہے۔ میں نے اپنے کیس میں کم از کم یہی دیکھا ہے۔
میں کمزور تھی، میرے ساتھ دو بچوں کا ساتھ تھا، میرا صحافت میں وہ مقام نہیں تھا شاید کہ میرے لیے کوئی خاتون کھڑی ہوتی، یا آواز اٹھائی جاتی۔ اس سارے کھیل میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جاتا۔
میں نے شادی بڑے چاؤ سے کی تھی۔ کسی کے وعدوں پہ اعتبار کر کے گھر والوں سے ٹکر لے کر اور دنیا کی نظر میں بری بن کر اپنی زندگی ایک آدمی کے حوالے کردی، لیکن بد قسمتی یہ رہی کہ میں ایک دن کی دلہن بھی نہیں تھی۔ دوسری بیوی ہونے کی وجہ سے ظلم اور زیادتیاں سہنے کی ہر حد کو عبور کیا، اپنا ہر کام اکیلے کیا، کسی لمحے کسی جگہ مجھے شوہر کے نام اور اس کے پیار کی چھاؤں محسوس نہیں ہوئی، دوسری بیوی ہونے کی وجہ سے مجھے سسرال والوں نے اپنی خوشیوں اور غموں سے دور رکھا۔ وہ سسرال والے جو باقاعدہ رشتہ لینے آئے، نکاح اور شادی میں بخوشی شامل ہوئے لیکن شادی کے بعد مجھے اون نہیں کیا گیا۔ بند کمروں میں بھابھی اور بہو کہا جاتا تھا لیکن دنیا کے سامنے سب مجھے پہچاننے سے انکاری ہو جاتے۔ میرے شوہر نے امریکہ جانے سے پہلے مجھ سے جو ملاقات کی، وہ آخری ملاقات تھی۔ یہ اسے پتہ تھا لیکن مجھے نہیں، کیونکہ امریکہ جیسے ملک میں وہ اپنے ساتھ رہنے کے لیے کاغذات میں پہلی بیوی کا نام دے چکا تھا جس سے میں لاعلم تھی۔ اس کے چھ ماہ بعد جب مجھ پہ بتا کر بجلی گرائی گئی کہ پہلی بیوی ساتھ رہے گی، تم نہیں، تم لاہور میں رہو گی۔ میں نے پوچھا کہ بیٹی کا اور میرا کیا ہو گا؟ جو بچہ اس دنیا میں آ رہا ہے، اس کا کیا ہو گا؟ تو کہا گیا کہ ماہانہ خرچ مل جایا کرے گا۔ سوال کیا گیا کہ بچوں اور مجھے جو ضرورت ہوگی آپ کی، اس کا کیا ہو گا؟ تو جواب ملا بچے پل جایا کرتے ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ مجھے تو آپ نے یہ کہہ کر قائل کیا تھا کہ پہلی شادی میں نفرت والے معاملات ہیں، مجھے تمہارے ساتھ ہی رہنا ہے۔ تو کیا یہی تعلق کی خرابی تھی؟ جواب میں رابطہ منقطع کر دیا گیا۔
چھ ماہ کے بعد میرے والد محترم نے معاملات سلجھانے کے لیے داماد کو کال کی تو داماد نے فون نہ اٹھایا اور دوست کے ذریعے مجھے پیغام بھجوایا کہ وہ کسی سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا، کوئی رابطہ نہ کرے۔ یہ پیغام اس باپ کو بھجوایا گیا جس کو میری ہی طرح رو رو کے شادی کے لیے قائل کیا تھا۔ اس کے بعد ذلت محسوس کرتے ہوئے میں نے جب کہا کہ اس سے بہتر ہے کہ طلاق دے دو لیکن معاملات طے کرو۔ اس عرصے میں کی گئی ایسی ای میلز کو بعد ازاں اس وقت خوب استعمال کیا گیا جب مجھ پہ حملہ ہوا کہ عنبرین نے مجھ سے طلاق مانگی تھی۔ تاہم لوگوں کو سیاق و سباق نہیں بتایا گیا کہ یہ جو میں پڑھا رہا ہوں یا سکرین شاٹ بھیج رہا ہوں، اس کے پیچھے کہانی یہ تھی کہ عنبرین کو پاکستان ہمیشہ کے لیے چھوڑ آیا تھا۔ جب عنبرین کو پتہ چلا تو اس نے کچھ سوال کیے جن کا میرے پاس جواب نہیں تھا، اس لیے میں نے رابطہ ختم کر دیا تھا۔ وہ حاملہ تھی اور میں اس کو پوچھتا نہیں تھا۔ اس کے باپ کا فون آیا تو رابطہ نہ کرنے کا پیغام بھجوایا۔ بس اسی طرح پونے دو سال گزر گئے۔
اپنے شوہر کے ہائی پروفائل صحافی ہونے کی وجہ سے پریشر رہتا تھا، دھمکیاں ملتی تھیں، ٹینشن دی جاتی تھی۔ لیکن میں نے کبھی سوشل میڈیا پر یہ گمان بھی نہیں ہونے دیا کہ ہمارے معاملات ٹھیک نہیں یا میں مشکلات سے گزر رہی ہوں۔ یہاں تک کہ دوسرا بچہ پیدا ہوا تو اس کی سیریس حالت کا ڈاکٹر کا لکھا پیپر دیکھ کر شوہر نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بیٹی کی آنکھ کا آپریشن ہوا باپ نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پونے دو سال طرح طرح کی آپشنز دیں۔ رشتہ قائم رکھنے کی لیکن کسی کو یہ نہ بتایا گیا کہ اس نے بہت ساری چیزوں پر کمپرومائز کر لیا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پونے دو سال ایک عرصہ ہوتا ہے اس میں مجھ سے رابطہ ختم کر کے پہلی بیوی کی طرف سارا رجحان تھا۔ وعدے وعید ہو چکے تھے۔ شاید یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ مجھے چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن حملہ ہوا تو بات پھر سے کھل گئی کہ عنبرین تو ابھی بھی بیوی ہی ہے۔ اس لیے بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ طلاق دے دی ہے۔ چلو اس سے پہلا گھر تو بچ گیا لیکن خود کی حقیقت بھی میرے سامنے واضح کردی کہ میں اس عورت کے سامنے تمہارا بوجھ نہیں اٹھا سکتا جس سے نفرت کا تعلق بتا کر تمہیں شادی کے لیے قائل کیا تھا۔
طلاق کا جھوٹا دعوی تو کر دیا لیکن آج تک بچوں کے مستقبل کے معاملات طے نہیں کیے گئے۔ ماہوار خرچ کا کیا حساب ہو گا، کچھ طے نہیں کیا گیا۔ میں بچوں کے ماہوار خرچ کی منتظر ہوں۔ آج (یہ تحریر لکھنے تک) پندرہ دسمبر ہے لیکن کوئی اتا پتہ نہیں۔ دودھ پیتے بچے چھوڑ دیے، چودہ ماہ کے بیٹے کو بغیر دیکھے چھوڑا، ڈھائی سال کی بیٹی جو دوسروں کی محبت میں باپ کو تلاشتی ہے اس کا خیال نہیں کیا گیا۔ میرا شوہر مجھ سے نفرت نبھاتا تو قابل فہم تھا، بچوں سے کیسی نفرت تھی؟ میرے بچے کیا یاد کریں گے کہ جب ہم پہ حملہ ہوا تھا، عین اس وقت باپ نے پہلا گھر بچانے کے لیے ہمیں ڈس اون کر دیا تھا؟ اب تو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین نہیں کھڑی ہوئیں کہ بچوں کے ماہانہ خرچ سمیت ان کے مستقبل کے معاملات طے کرنا اس آدمی کا فرض ہے جس نے ان کو مشکل میں آنکھ کھولتے ہی چھوڑ دیا۔ میرے خلاف جھوٹ پہ مبنی مہم چلانے والے کہاں ہی۔ مجھے آج کے دن اور اس لمحے تک طلاق نہیں دی گئی نہ زبانی نہ تحریری، خلع کا دعوی میں نے اس وقت دائر کیا جب میں نے دیکھا کہ اتنے مشکل وقت میں جب مجھ پہ حملہ ہوا میرے شوہر نے مجھے ڈس اون کر دیا۔ پھر ایسے ذلت بھرے رشتے میں رہنے کا کیا جواز تھا؟
میرے اور میرے بچوں کے ویزے حملے سے کئی ہفتے پہلے ہی لگ چکے تھے۔ ایمبیسی سے نکلتے ہی پہلی کال انصار عباسی صاحب کو کی تھی اور شوہر کو پیغام بھجوایا کہ چار چھ ہفتوں کے لیے امریکہ آتی ہوں، بچوں سے ہی مل لو۔ شوہر نے بچوں سے ملنے سے بھی انکار کر دیا تو پھر امریکہ جانے کا کبھی دوبارہ نہیں سوچا، لیکن جب مجھے ڈس اون کر کے میری رسوائی کی گئی تو ہر طرف سوال ہو رہے تھے۔ دل شکستہ تھی۔ اس ساری ڈپریسنگ صورتحال سے بچنے کے لیے گاڑی فروخت کر کے امریکہ بہن کے پاس آ گئی تو کہا گیا کہ جنرل فیض حمید نے امریکہ بھجوایا ہے۔
افسوس کہ جب ایسا الزام لگایا جا رہا تھا تب بھی انصار عباسی صاحب خاموش رہے۔ ایک ٹویٹ نہ کیا کہ عنبرین اور اس کے بچوں کے ویزے بہت پہلے لگے تھے اس سے حساس ادارے کا کیا تعلق؟ میرے گھر والوں نے امریکہ جانے کا مشورہ پہلے بھی ایک مرتبہ دیا تھا جب میں اپنے بچے کے لیے چار ماہ کی حاملہ تھی اور شوہر کی بے رخی کے باعث خود کو بند گلی میں محسوس کرتی اور اس اذیت ناک رشتے سے نجات کا راستہ خود کشی نظر آیا تو خود کشی کی کوشش کی، ہسپتال پہنچ گئی۔ شوہر کو بتایا گیا تو اس نے حال تک نہ پوچھا۔
میرے اور بچوں کے ویزے لگنے سے میرا شوہر اس لیے برافروختہ ہوا کہ عنبرین یہاں آ گئی تو امریکی قوانین کی نظر میں میری پہلی بیوی کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کر دے / اسی لیے خود اور اپنے دوستوں سے میرے خلاف خوب گندی مہم چلوائی کہ امریکہ جنرل فیض حمید نے بھجوایا ہے۔ تاکہ لوگ اصل مدعے کی طرف نہ آئیں کہ احمد نورانی نے زیادتی کی ہے، دودھ پیتے دو بچے چھوڑے ہیں اور ایک بیوی کو اندھیرے میں رکھ کر دوسرا گھر بسایا ہے۔
یہ ہے میری کہانی اور مجھ پہ لگے الزامات کی حقیقت۔ پونے دو سال سے میرے شوہر نے رابطہ نہیں کیا تھا مجھ سے۔ اس طرح کی علیحدگی ضرور تھی لیکن طلاق آج کے دن نہ تحریری ہوئی نہ زبانی۔ میری زندگی برباد ہو گئی اور بچے آنکھ کھلنے سے پہلے یتیم ہو گئے لیکن میرے شوہر کا پہلا گھر ضرور بچ گیا۔ مجھ سے بچوں کی پرورش کو لے کر معاملات تاحال طے نہیں کیے گئے، اور بچوں کا باپ غائب ہے، کسی طرح سے رابطے میں نہیں، کیا یہ بچے صرف میری ذمہ داری ہیں؟ بچوں کو اکیلی پال رہی ہوں، شدید مشکلات کا شکار ہوں لیکن کسی قسم کے معاملات طے نہیں کیے جا رہے، میری بات شاید پڑھنے والوں کو سخت یا نامناسب لگے لیکن میں کہوں گی کہ مجھے اب سمجھ آتی ہے کہ اپنے ہی پیٹ سے نکلے بچوں کو مار کر مائیں خود کیوں مر جاتی ہیں۔ یقیناً بھوک پیاس، باپ کے ہوتے ہوئے بچوں کی یتیمی کی زندگی، وغیرہ جیسی وجوہات ہی ہوتی ہوں گی۔
باپ کے ہوتے ہوئے ماں کا یوں سنگل پیرینٹ بن کے بچوں کی پرورش کرنا معاش کے لیے جدوجہد کرنا یقیناً کسی چینلج سے کم نہیں ہوتا اور اسی قسم کے چینلجز کا مجھے سامنا ہے لیکن جنہوں نے میرے خلاف میڈیا مہم چلائی، مجھے گندا کیا ان کی زبانوں پر اب تالے پڑے ہوئے ہیں کہ مسائل بیوی کے ساتھ تھے لیکن بچے تو آپ کے ہیں وہ آپ کی ذمہ داری ہیں۔ ان کے معاملات طے کرو تاکہ ایک اکیلی خاتون بچوں کو عزت سے پال سکے۔ حیرت ہے کہ کس طرح نیند آتی ہوگی کہ بیٹا دنیا میں لا کر دیکھا تک نہیں، بیٹی کی کبھی خبر نہیں لی لیکن ہائی پروفائل صحافی ہونے کی وجہ سے احمد نورانی کو ذاتی رشتے میں یہ سب کرنا جائز ہے کیونکہ اس کی رپورٹنگ ملکی اداروں اور سیاست کو ہلا دیتی ہے۔
بشکریہ: ہم سب ڈاٹ کام