Top Rated Posts ....

Trans woman who is searching for love, wants relations with men - BBC Urdu story

Posted By: Amjad Shah, January 30, 2022 | 15:19:08Category: Mix Videos




ٹرانس خاتون کی محبت کی تلاش: ’لوگ جنسی اعضا اور سیکس سے متعلق سوال پوچھتے تھے‘

ڈینیلا میکڈونلڈ ایک ٹرانس عورت ہیں جو مردوں کی طرف جنسی رغبت رکھتی ہیں۔ کیلیفورنیا میں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ اس طالبعلم کا کہنا ہے کہ جوش سے ملنے سے قبل لڑکوں کے ساتھ ڈیٹنگ ایک ’خوفناک تجربہ‘ تھا۔ گذشتہ ڈھائی برس سے وہ ایک تعلق میں بندھے ہیں۔

ڈینیلا کا خیال ہے کہ خواتین میں رغبت رکھنے والے مرد آہستہ آہستہ ٹرانس خواتین سے ڈیٹنگ کرنے کے خیال کو زیادہ قبول کرنے لگتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کی صنف اور شناخت کی نامہ نگار میگھا موہن سے اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔۔۔

جھیل میں مچھلی پکڑنے کے لیے کانٹا پھینکے جانے سے جو آواز پیدا ہوتی ہے اس سے جوش میری طرف متوجہ ہوئے اور ہم نے آنکھیں موند لیں۔

ان کے ساتھ میرے والد کھڑے تھے، لیکن جوش کے برعکس وہ سیدھا آگے دیکھ رہے تھے، مچھلی پکڑنے کی چھڑی پکڑے ہوئے وہ علاقے کی مشہور ٹراؤٹ مچھلی کو پکڑنے کی امید کر رہے تھے۔

میرے خاندان نے کیلیفورنیا کے سیرا نیواڈا کے پہاڑوں میں میموتھ لیکس میں ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ یہ جگہ بلند و بالا پہاڑوں اور صاف ستھری جھیلوں، پیدل سفر کے راستوں اور آلودگی سے پاک آسمان کے لیے جانی جاتی ہے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

جوش میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ میرا خاندان سیر و تفریح کا شوقین ہے اور یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ آپ کا بوائے فرینڈ آپ کے خاندان کے ساتھ آسانی سے فٹ بیٹھتا ہے۔ میرے لیے اہم دو آدمیوں کو اطمینان سے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے دیکھ کر، مجھے سکون کا احساس ہوا۔ ایک وقت تھا کہ میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔

جوش سے قبل تو میرے لیے ڈیٹنگ ایک خوفناک عمل تھا۔

اپنی عمر کے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی ڈیٹنگ ایپس استعمال کرتی تھی۔

رومانوی تعلقات کی بات کی جائِے تو میں کافی قدامت پسند ہوں: یک زوجگی، جنسی لذت، کوئی ایسا شخص جس کو اپنے ساتھ ناشتہ بنانے کے لیے لے جا سکوں، کوئی ایسا شخص جو کیلیفورنیا یونیورسٹی میں میڈیکل کے طالب علم کے طور پر طویل اوقات کے دوران میری مدد کرنے کے لیے موجود ہو۔

سوائے پہلے دو الفاظ کے جو میں خود کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتی ہوں: ’ٹرانس جینڈر عورت‘ میں نے ایک معیاری ڈیٹنگ پروفائل لکھی تھی۔

میں اپنی صنفی شناخت نہیں چھپاتی، میں ہمیشہ شروع سے ہی آگے رہتی ہوں۔ مجھ میں 26 سال کی عمر میں جسمانی طور پر تبدیلی شروع ہو گئی تھی لیکن میں سالہا سال سے ڈینیلا کے طور پر رہ رہی تھی۔





ایک عورت کے طور پر زندگی کو اپناتے ہوئے، میں نے میڈیا میں خواجہ سراؤں کے بارے میں ہونے والی بحثوں میں کبھی حصہ نہیں لیا۔

میں اور میرے خواجہ سرا دوست اس بات پر بحث نہیں کرتے کہ کس باتھ روم میں جانا ہے یا نام کے ساتھ مذکر یا مؤنث استعمال کرنا ہے۔

ہم اس موضوع پر بات کر رہے ہیں جس کے بارے میں زیادہ تر نوجوان بات کرتے ہیں یعنی: تعلقات۔

ایک عورت کے طور پر جو مردوں کی طرف راغب ہوتی ہے، میں ایک ایسے مرد کے ساتھ رہنا چاہتی تھی جو عورتوں کی طرف راغب ہو۔ لیکن میں ایپ پر موجود کچھ مردوں کے رویے کے لیے تیار نہیں تھی۔ میری ڈیٹنگ پروفائل پر براہ راست پیغامات میں سے زیادہ تر بہت خوفناک تھے۔

صبح اٹھ کر فون پر جو پیغامات دیکھے ان میں مجھے ’ٹرینی‘ پکارا جاتا تھا، میرے فون پر جو آواز آتی تھی ان پیغامات میں یہ لکھا ہوتا تھا کہ کیا آپ ایک مرد ہیں۔

مجھے قتل کی دھمکیاں تک موصول ہوئیں۔

کم ہی سہی مگر پھر بھی پریشان کن حد تک کچھ مرد ایسے بھی تھے جو خواجہ سرا خواتین میں ’مختلف‘ جنسی رغبت رکھتے تھے۔ انھوں نے مجھے ایک عارضی تجربہ کے طور پر دیکھا اور احترام کی حد برقرار نہ رکھ سکے۔

ہماری ابتدائی بات چیت میرے جنسی اعضا کے بارے میں سوالات پر مرکوز تھی اور یہ کہ ہم کس قسم کا سیکس کریں گے۔

پھر وہاں ایسے مہربان مرد بھی تھے جو میرے ساتھ رہنا چاہتے تھے، لیکن ان کے ساتھ ملنا پھر بھی مشکل تھا۔

کاغذ پر اچھے آدمی جو نجی طور پر مجھ سے دلچسپی اور احترام رکھتے تھے، ایک ٹرانس عورت کے ساتھ پبلک میں دیکھ کر شرمندگی محسوس کرتے تھے۔ یہ لوگ مجھے اپنے خاندان یا دوستوں سے متعارف نہ کراتے۔

کچھ لوگ کہتے کہ اگر ان کی ملازمت کی جگہ پر پتا چلا کہ وہ ایک خواجہ سرا عورت سے مل رہے ہیں تو وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

میرے نزدیک یہ اندرونی ہومو فوبیا کی طرح لگتا تھا، وہ مجھے ایک عورت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی زندگی میں لوگ انھیں ہم جنس پرستوں کے طور پر دیکھیں۔

ایسے تجربات میرے لیے بہت مشکل تھے، صیحح معنوں میں بہت مشکل تھے۔

مجھے یاد ہے ایک آدمی کے ساتھ فلم دیکھنے گئی، میں بہت پرجوش تھی، اور جب وہ ٹکٹ خرید رہا تھا، میں نے سوچا واہ، یہ آدمی واقعی پیارا ہے اور ہم ایک اچھی، روایتی قسم کی ڈیٹ پر ہیں۔

پھر، جب ہم اندھیرے والے سنیما میں بیٹھ گئے اور مرکزی فلم سے پہلے ٹریلر چلنے لگے، وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ میں یہ کر سکتا ہوں، اور وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔ میں نے اس کا تعاقب کیا اس جگہ تک جہاں اس نے ٹکٹ واپس کر دیے اور وہ گھر واپسی کے رستے میں ہی مجھے تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔

مجھے ایسا لگا جیسے میں تباہ ہو گئی تھی۔ یہ ذلت کا ایک مستقل چکر تھا، جہاں ایسا لگا کہ میرے ساتھ کچھ غلط ہے، بنیادی طور پر ایسی چیز جسے کوئی پیار نہیں کر سکتا۔

رویوں میں تبدیلی

فلپائن میں مقیم میکی گنگوئیون سیرل مازور کے ساتھ مل کر مائی ٹرانسجینڈر ڈیٹ نامی ڈیٹنگ ویب سائٹ چلاتی ہیں۔

میکی کا کہنا ہے کہ جب اس سائٹ کا سنہ 2013 میں آغاز ہوا تھا تو فوری طور پر 15 لاکھ پروفائلز کا سیٹ اپ کیا گیا، مگر بہت کم لوگ سرگرم تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ پچھلے آٹھ برسوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

فعال اراکین کی تعداد چند سو سے بڑھ کر 120,000 تک پہنچ گئی ہے۔

خواجہ سرا شریک حیات تلاش کرنے کے خواہشمند خواتین کی طرف رغبت رکھنے والے سسجیینڈر مردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب اپنی تصاویر پوسٹ کرنے میں پراعتماد محسوس کرتی ہے اور 20 اور 30 ​​برس کی عمر کے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اب اس ویب سائٹ کا حصہ بن گئے ہیں۔

میکی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سنہ 2013 میں یہ سائٹ قائم کی کیونکہ ہم خواجہ سرا خواتین اور سسجینڈر مردوں کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بامعنی رومانوی تعلقات تلاش کرنے کے لیے ایک مہذب اور محفوظ جگہ چاہتی تھیں۔

خواجہ سرا شخص کے طور پر ڈیٹنگ کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ آن لائن جگہوں کو ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خواجہ سراؤں کو آن لائن جگہوں میں سکون اور کمیونٹی مل سکتی ہے، لیکن وہ ایسی جگہیں بھی ہو سکتی ہیں جو ان کے لیے ذلت آمیز ثابت ہوں۔ تاہم، چیزیں بدل رہی ہیں۔ میں اعتماد سے کہہ سکتی ہوں کہ اس قسم کے تعلقات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اور پھر میری ملاقات جوش سے ہوئی۔

اس نے مجھے ڈیٹنگ ایپ پر میسج کیا اور مجھے کچھ مختلف احساس ہوا۔ جوش مجھ سے پانچ برس چھوٹا ہے اور امریکی فوج میں ہے۔ وہ ایک محبت کرنے والے فلپائنی-امریکی خاندان سے ہے اور اس نے انھیں میرے بارے میں سب کچھ بتایا۔ بشمول میری صنفی شناخت کے۔

جب انھیں معلوم ہوا کہ ہم سنجیدہ ہیں۔ وہ اس حقیقت کو جان کر جیسے اپنے سر پکڑ کر رہ گئے کہ ان کا بیٹا ایک خواجہ سرا عورت کے ساتھ تھا لیکن وہ ہمیشہ مہربان رہے۔

جوش کی پہلی رشتہ دار جس سے میری ملاقات ہوئی وہ اس کی بہن تھی، اور میں اس کے چہرے پر خوشی دیکھ سکتی تھی جب اس نے تعارف ایسے کرایا کہ اب ہم ایک ہیں۔ میں جوش کے پورے خاندان سے ملی۔ جب میں اندر گئی تو اس کے دادا نے پہلی بات جو کہی وہ یہ تھی، جوش، یہ بہت خوبصورت ہے۔

میں نے ایک بار جوش سے پوچھا کہ جب محبت کی بات آتی ہے تو وہ اتنے روشن خیال اور دوسرے مردوں کے برعکس کیسے تھے جو صرف خواتین میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ایک خواجہ سرا عورت اس کے دوستوں کے حلقے کا حصہ رہی ہے اور وہ اسے اس کی شناحت کی وجہ سے اپنا نہیں سمجھتے تھے۔

صرف ایک خواجہ سرا شخص کو جاننے کی طاقت نے اس کے دماغ کو روشن کر دیا۔ اس نے کہا کہ مجھے آپ سے ڈیٹنگ کرنے اور ایک سسجینڈر عورت سے ڈیٹنگ کرنے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے درمیان ’عام محبت‘ ہے۔

یہ ڈھائی سال پہلے کی بات ہے اور ہم تب سے ساتھ ہیں۔ جوش اور مجھے ہمارے مستقبل کے بارے میں کسی دوسرے جوڑے کی طرح چیلنجز کا سامنا ہے۔ اور میرے پاس عجیب و غریب دوستوں کا ایک بڑا حلقہ ہے، جو ہر قسم کے رشتوں کو اپناتے ہیں، میں کہوں گی کہ ہمارا تعلق کافی روایتی ہے۔

اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ وہ وقت ہے جو ہمیں اپنے کریئر کی وجہ سے الگ الگ گزارنا پڑتا ہے۔ جوش کو امریکی فوج کے ساتھ تربیت میں مہینوں گزارنا پڑتے ہیں اور میں فی الحال میڈیکل سکول میں دن میں 12 گھنٹے پڑھ رہی ہوں۔

لیکن میری ایک اور خواہش بھی ہے۔ اپنے دوست ایوی مانولانگ کے ساتھ، جو خواجہ سرا اور ایک نرس بھی ہے، میں خواجہ سراؤں اور غیر خواجہ سرا افراد کے لیے ایک ڈیٹنگ ایپ لانچ کرنا چاہتی ہوں، جو مختلف صنفی شناخت والے لوگوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔

خواجہ سرا خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا رہا ہے لہٰذا ہم حفاظت کو یقینی بنانے کے طریقہ کار پر کام کر رہی ہیں۔ ہر ایک کو عزت کے ساتھ جینے اور پیار کرنے کا حق ہونا چاہیے۔





میں مستقبل کے لیے پر امید ہوں۔ جب میں بڑی ہو رہی تھی تو میں نے ٹی وی پر صرف خواجہ سراؤں کو دیکھا، جو جیری سپرنگر جیسے شوز میں طنز کا نشانہ بنے۔ اب ہمارے پاس نوجوان اداکار ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ خواجہ سرا ہیں۔

ٹی وی شو یوفوریا کے ہنٹر شیفر جیسے لوگ جو اپنی شناخت کے بارے میں اپنے غیر معمولی انداز میں بہت روشن خیال ہیں۔ جب میں بڑی ہو رہی تھی تو یہ سب ایسا نہیں تھا۔ لوگ مختلف صنفی شناختوں کو خود بنتے ہوئے دیکھنے کے عادی ہو رہے ہیں، میں جانتی ہوں کہ ذہن بدل جائیں گے اور آپ کو میرے اور جوش جیسے مزید رشتے نظر آئیں گے۔

میں یقینی طور پر یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ ہر ایک کو خواجہ سراؤں سے ڈیٹنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ میں ایسا ہرگز نہیں کہہ رہی ہوں۔ لیکن زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس خیال کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ ایسی محبت کا تصور موجود ہے اور یہ ٹھیک بھی ہے۔

میرا رشتہ فی الحال بے مثال ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب یہ تصور بہتر ہو رہا ہے کیونکہ جنریشن زی صنفی تنوع کے بارے میں زیادہ روشن خیال ہے۔ ٹک ٹاک پر ہیش ٹیگ (سس ٹرانس کپل) #cistranscouple پر 3.7 ملین سے زیادہ ویوورز ہیں اور میں اس بارے میں بہت پُرجوش ہوں۔

بشکریہ: بی بی سی اردو


Comments...