تشدد سے نوجوان کی ہلاکت؛ رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج
Posted By: Saleem Shah, July 20, 2013 | 21:50:25
کراچی: رینجرز اہلکاروں اور ایک پولیس اہلکار کے خلاف بلال عرف ملا کے قتل کا مقدمہ سچل تھانے میں درج کر لیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق سچل تھانے کی لاک اپ میں ہلاک ہونے والے مبینہ ملزم بلال عر ملا کے قتل کا مقدمہ الزام نمبر383/13 رینجرز اہلکاروں اور سچل تھانے کے ایک کانسٹیبل علی رضا کے خلاف سچل تھانے میں بجرم دفعہ 302، 342 کے تحت مقتول کے والد یاسین کی مدعیت میں درج کر لیا گیا،ایس ڈی پی او سچل ڈی ایس پی خالد خان نے بتایا کہ مدعی یاسین نے اپنے بیان میں بتایا کہ 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب رینجرز کی نفری اور پولیس سچل تھانے کی پولیس چوکی پر تعینات اہلکار علی رضا ان کے گھر میں داخل ہوئے تھے اور چاروں بیٹوں اور انھیں پکڑ کر موبائل میں ڈال دیا اس دوران پولیس اہلکار علی رضا نے ان کے بیٹے بلال کی کنپٹی پر سرکاری گن کا دستہ مارا جس سے اس کے کان اور کنپٹی سے خون بہنے لگا تھا۔
یاسین نے بتایا کہ انھیں اور ان کے چاروں بیٹوں کو رینجرز ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا ، رینجرز ہیڈ کوارٹر میں ایک کمرے میں انھیں اور ان کے 3 بیٹوں کو جبکہ بلال کو الگ کمرے میں رکھا گیا انھوں نے بتایا کہ رینجرز اہلکاروں نے بلال پر اتنا تشدد کیا کہ اس کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں ، یاسین نے ایف آئی آر میں اپنا بیان درج کراتے ہوئے بتایا کہ اس کے بیٹے کو بجلی کا کرنٹ بھی لگایا گیا، یاسین نے بتایا کہ رینجرز اہلکاروں نے انھیں اور ان کے3 بیٹوں کو سپر ہائی وے لے جاکر چھوڑ دیا تھا، ڈی ایس پی خالد خان نے بتایا کہ مدعی نے اپنے بیان میں بتایا کہ سچل تھانے کی چوکی کا پولیس اہلکار علی رضا اس سے قبل بھی متعدد بار ان کے گھر پر چھاپے پڑوا چکا ہے، چھاپہ مار ٹیم میں شامل رینجرز اہلکاروں کو سامنے آنے پر شناخت کر لیا جائے گا۔
ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ایس ایچ او سچل انسپکٹر اعجاز راجپر نے رینجرز کے ہاتھوں پکڑے گئے ملزمان پر اپنی کار کردگی دکھائی جس کے باعث وہ پھنس گیا اگر وہ ملزمان کی گرفتاری رینجرز کے حوالے سے درج کردیتا تو شاید معطلی اور تنزلی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا انسپکٹر اعجاز راجپر نے اپنے اعلیٰ افسران کو رات تقریباً ڈھائی بجے موبائل فون کے ذریعے ایک میسج میں بتایا کہ اس نے سپر ہائی وے سے مقابلے میں 6 ملزمان کو گرفتار کیا ہے جس پر اعلیٰ افسران نے انھیں شاباش دی تھی۔
پولیس افسر نے بتایا کہ سچل تھانے کا انویسٹی گیشن انچارج انسپکٹر نصیر الدین مروت عقلمند افسر ہے جس کے باعث ملزم ایف آئی آر درج ہونے کے بعد جیسے ہی انویسٹی گیشن پولیس کو ملا تو ملزم کو الٹیاں اور دست ہو رہے تھے جبکہ اس کی حالت بھی تشویش ناک تھی جس کے باعث اسے میڈیکل معائنے کے لیے عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا جہاں ایم ایل او نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ملزم کے جسم پر 6 جگہ بجلی کا کرنٹ لگایا گیا ہے جبکہ جسم کے مختلف حصوں پر تشدد بھی کیا گیا ہے۔
انویسٹی گیشن پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ مقتول بلال کے والد یاسین کی طرف سے رینجرز اور پولیس اہلکار کے خلاف درج کرائی جانے والی ایف آئی آر کا اگر چالان ہو گیا تو ملزم بلال اور دیگر افراد کے خلاف سرکاری مدعیت میں درج کی جانے والی ایف آئی آر جھوٹی ہو جائے گی اور سرکاری اہلکاروں و مدعی سب انسپکٹر شعیب کے خلاف 182 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا،دریں اثنا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر نے سچل تھانے کی حوالات میں ملزم کی ہلاکت پر جوڈیشل مجسٹریٹ کو تحقیقاتی افسر مقرر کردیا ہے، فاضل جج نے پولیس مقابلے اور اقدام قتل کے الزام میں گرفتار ملزمان کو مکمل طبی امداد فراہم کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، تھانہ سچل کی حوالات میں ملزم بلال کی ہلاکت پر جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر نوید اصغر شیخ کی نگرانی میں مقتول کا پوسٹ ماٹم کیا گیا تھا، ہفتے کو فاضل جج نے ابتدائی رپورٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر محمد یامین کے روبرو پیش کی اور ابتدائی پوسٹ ماٹم رپورٹ سے آگاہ کیا کہ ملزم پر دوران حراست تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں۔
فاضل عدالت نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو تحقیقاتی افسر مقرر کرتے ہوئے مکمل پوسٹ ماٹم رپورٹ گواہوں کے بیانات ، شواہد اور اصل حقائق سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے،دریں اثنا پولیس نے اقدام قتل، پولیس مقابلہ، اسلحہ ایکٹ اور دستی بم رکھنے کے الزام میں گرفتار ملزمان مقبول عالم ، عامر ، جمیل ، امین اﷲ اور نعمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ نوید اصغر شیخ کے روبرو پیش کیا اس موقع پر ملزمان کے وکلا سید ندیم ہاشمی اور محمد ادریس نے عدالت کو حقائق سے آگاہ کیا کہ موکلوں کو رینجر حکام نے 15 جولائی کو حراست میں لیا تھا اور مقبول عالم کے بھائی نور محمد خان نے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو تحریری درخواست ارسال کی تھی جبکہ پولیس کے ریمانڈ پیپر میں 18 جولائی کو مقابلے کے بعد گرفتاری ظاہر کی گئی ہے جوکہ جھوٹ پر مبنی ہے ان کے موکلوں کو دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
وکلا نے ضابطہ فوجداری کی ایکٹ 63 سی آر پی سی کے تحت فوری رہا کرنے کی استدعا کی ہے،اس موقع پر وکیل سرکار نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات مکمل نہیں ہوئی کیونکہ ملزم کی ہلاکت پر ایس ایچ او اور ڈیوٹی افسر کو معطل کردیا گیا ہے عارضی طور پر سب انسپکٹر محمد اشرف جوگی کو تفتیشی افسر مقرر کیا گیا ہے دوران تفتیش شواہد نہ ملنے پر ملزمان کو رہا کردیا جائے گا، فاضل عدالت نے تفتیش کیلیے 4 روز کے جسمانی ریمانڈ پر ملزمان کو پولیس کی تحویل میں دیا اور تمام زخمی ملزمان کو فوری طبی امداد دینے کی میڈیکل رپورٹ بھی طلب کی ہے فاضل عدالت نے ملزمان کی شکایت پر رینجر حکام کی جانب سے کیے گئے تشدد کے زخم بھی دیکھے اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ تمام ملزمان کو زخمی حالت میں پیش کیا گیا ہے۔