People in the finance ministry are earning billions of rupees by artificially raising dollar rate - Gharida Farooqi
Posted By: Ejaz, June 21, 2022 | 09:52:19People in the finance ministry are earning billions of rupees by artificially raising dollar rate - Gharida Farooqi
غریدہ فاروقی نے اپنی ٹویٹ اور اپنے آرٹیکل میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طور پر بڑھا کر اربوں روپے کمائے جارہے ہیں۔ غریدہ فاروقی نے وزیراعظم شہباز شریف کو اپیل کی ہے کہ وہ پتا لگائیں کہ وزارتِ خزانہ میں کون کون اس گورکھ دھندے میں ملوث ہے۔ غریدہ فاروقی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا "ڈالرآج 215روپے پر پہنچ گیا ہے!!! 250 تک جانیکی خبریں ہیں! جب تک ڈالر ریٹ کنٹرول نہیں کرینگے؛معیشت کیسے بہتر ہو گی، مہنگائی کیسے کم ہو گی؟وزیراعظم شہبازشریف توجہ دیں! ڈالر ریٹ پر مال “اندر سے” کمایا جا رہا ہے! فوری ایکشن لیا جائے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔"۔
ڈالرآج 215روپے پر پہنچ گیا ہے!!! 250 تک جانیکی خبریں ہیں! جب تک ڈالر ریٹ کنٹرول نہیں کرینگے؛معیشت کیسے بہتر ہو گی، مہنگائی کیسے کم ہو گی؟وزیراعظم شہبازشریف توجہ دیں! ڈالر ریٹ پر مال “اندر سے” کمایا جا رہا ہے! فوری ایکشن لیا جائے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ https://t.co/sxQXiqM1pQ
— Gharidah Farooqi (@GFarooqi) June 21, 2022
غریدہ فاروقی نے انڈیپنڈنٹ اردو میں لکھے اپنے آرٹیکل میں بھی اسی نکتے کو اٹھایا
------------------------
وزیراعظم شہباز شریف کے لیے چند مفت مشورے ۔۔ غریدہ فاروقی
حالات بظاہر تو بالکل بھی اچھے نہیں ہیں۔ مہنگائی عوام کا خون نچوڑتے آکاس بیل کی مانند اوپر ہی اوپر آسمان کی جانب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ڈالر کے بارے میں خدشات ہیں کہ اڑھائی سو تک تو ضرور جائے گا۔ جب روپیہ دھوبی پٹڑے کی مانند مسلسل منہ کی ہی کھاتا رہے گا تو کیا مہنگائی کنٹرول ہو گی اور کیا معیشت بہتر ہو گی۔ ڈالر ریٹ وزیراعظم کی فوری ہنگامی توجہ کا طلب گار ہے۔ اس معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف کو نہ صرف لاعلم رکھا جا رہا ہے بلکہ غلط معلومات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
وزیراعظم صاحب کو کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وزارت خزانہ میں کون کون اس گورکھ دھندے میں ملوث ہے اور کس طرح ڈالر کے ریٹ کومصنوعی طور پر بڑھا کر کون کون کروڑوں اربوں ہتھیا رہا ہے۔
روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا کوئی طوفانی کام یا راکٹ سائنس نہیں۔ نا ہی اس کے لیے عالمی مارکیٹ کی پابندیوں کی محتاجی ہے۔
یہ مسئلہ مقامی عناصر کا پیدا کردہ ہے اور اس کا حل مقامی اقدامات ہی ہیں۔ جب تک ڈالر کے ریٹ کو قابو نہیں کیا جاتا، روپے کو استحکام کی طرف نہیں لایا جاتا، مہنگائی کنٹرول کرنے کا کوئی تصور کرنا بھی محال ہے۔ اس ایک معاملے کی طرف تو حکومت کو ہنگامی توجہ دینی ہو گی۔
دوسری جانب، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں فی الحال تو ’اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے‘ کے مصداق بمطابقِ حکومت جس پیسے پر خرید ہورہی ہے اُسی پیسے پر عوام کو بیچی جا رہی ہے۔
لیکن ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، جب تک روس کا یوکرین سے بھِڑنا ٹھہرتا نہیں تب تک نہ عالمی مارکیٹ میں اور نہ ہی پاکستانی عوام کے لیے ریلیف کے کوئی اثرات نظر آتے ہیں۔
ایک موہوم سی امید پیدا تو ہوئی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہونے کے ارادے رکھتے ہیں۔
معاملات اگر بہ احسن طریقے سے طے ہو گئے توسعودی عرب کا نہ صرف پاکستان جیسے غریب برادر ممالک کے لیے احسانِ عظیم ہو گا بلکہ کُل عالم کی مارکیٹ کے لیے اچھی خبر ہو گی اورعین ممکن ہے تیل کی قیمتیں کم ہو جائیں۔
لیکن یہ سب فی الوقت تو پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ کے برابر ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں بڑی گھمبیرتائیں حائل ہوا کرتی ہیں جن کے مابین راستہ نکالنے کے لیے وقت اور دِقّت دونوں درکار رہتی ہیں۔
گذشتہ دنوں بڑا چرچا رہا کہ پاکستان نے روس سے سستے تیل کے لیے معاہدہ کر لیا تھا لیکن اس بے پیندے کے کلیم کا بھانڈا بھی بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔ مگر راستہ تو بہرحال اب بھی موجود ہے۔
حکومت کے پاس آپشن تو پھر بھی باقی ہے کہ روس سے تیل خریدا جائے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی حکومتِ پاکستان کے پاس ایک اور سنہرا موقع ایرانی تیل کی صورت میں موجود ہے۔
فی الحال ایران سے براستہ بلوچستان پاکستان میں ایرانی تیل صرف سمگل ہو کر ہی آتا ہے جس سے قومی خزانے کو ایک سو ارب روپے کا نقصان پڑتا ہے۔
ایرانی تیل کی سمگلنگ کے پسِ پردہ کیا حقائق ہیں اور بلوچستان کی کون کون سی طاقت ور قوتیں اس میں ملوث ہیں، اس پر آئندہ کسی کالم میں انکشافات کر دوں گی، لیکن فی الحال ایرانی تیل سمگلنگ سے جو فائدہ بےروزگار اور محروم بلوچ طبقات کو ہو رہا ہے، اُس سمگلنگ کو ختم کر کے اور ایرانی تیل کی درآمد کو قانونی قرار دے کر نہ صرف بلوچستان کے عوام کی خوشحالی میں بڑا مثبت کردارادا کیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کی تیل کی ضروریات بھی بڑی حد تک پوری کی جا سکتی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے 22 لاکھ لوگوں کو ایرانی تیل کی سمگلنگ سے فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن اس سمگلنگ کو روک کر اور ایرانی تیل کو قانوناً پاکستان میں درآمد کروا کر 100 ارب روپے کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کو بچایا جا سکتا ہے اور یہ پیسہ بھی بلوچستان کی ترقی اورخوشحالی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فی الوقت پاکستان تیل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور جنوبی افریقہ سے درآمد کرتا ہے۔ ایرانی تیل نہ صرف قیمت میں سستا بلکہ وافر دستیاب ہے اور درآمد کرنے کی ٹرانسپورٹ لاگت بھی کم پڑتی ہے۔ ایران کے ساتھ تیل درآمد کرنے کا پاکستان کو ایک اور فائدہ چین اور سی پیک کے ساتھ بھی معاون اور مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
فی الحال چین ایران سے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کے علاوہ بھارت بھی ایران سے تیل ’بارٹر ٹریڈ‘ کے اُصول کےتحت خریدتا ہے۔
کچھ تیل ایران، شام اور وینزویلا کو بھی فراہم کرتا ہے۔ لیکن چین اور بھارت جیسی بڑی عالمی قوتیں اگر امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل خرید سکتی ہیں تو پاکستان بھی موجودہ ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں اپنے قومی مفادات کومدِّنظر رکھ کر فیصلہ کرنے میں خودمختار ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں سعودی عرب کو بھی اعتماد میں لیا جا سکتا ہے۔ یہ کام کچھ ایساناممکن بھی نہیں بس اس کا آغاز کرنے کے لیے ہمت، حوصلہ، وژن اور قومی مفاد کے مقدم ہونے کا احساس درکار ہے۔
میری مخلص رائے میں شہباز شریف حکومت کو اس آپشن پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی سے اس معاملے پر پہلا قدم بڑھانا چاہیے۔
وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری ایران کے دورے پر بھی موجود تھے۔ اس سلسلے میں وزیرِ خارجہ کی معاونت بھی مختلف حوالوں سے انتہائی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
ایرانی تیل کی پاکستان درآمد کے نقصانات تقریباً صفر ہیں اور فوائد ہزاروں۔ حکومت اور پاکستان کے ریاستی ادارے، اگر پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے بسم اللّہ کرے، تو کیا نہیں ہوسکتا۔
آخر کو پاکستان، ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود ایک سو میگاواٹ بجلی بھی تو درآمد کرتا ہے جو بلوچستان کے مختلف علاقوں کو روشن کیے ہوئے ہے۔
اسی طرح ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر جو کام ملکی سیاست بازی اور عالمی ریشہ دوانیوں کے باعث رُکا ہوا ہے، اُن رکاوٹوں کو دور کر کے نہ صرف پاکستان کی گیس ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ ایرانی تیل کی قانونی درآمد کا آغاز کر کے بھی ملکی ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
بین الاقومی تعلقات کی نئی جہت کے مطابق ہمسایہ ممالک اور خِطّے کے آپسی تعلقات، ایک دوسرے کے وسائل سے فوری اور سستے فوائد حاصل کرنا، نہ صرف انممالک کے لیے انفرادی طور پر سودمند رہتا ہے بلکہ عالمی تعلقات کی بہتری اور گلوبل ویلج کی خوشحالی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
یہ ایک ایسا انقلابی قدم ہو گا جو وزیراعظم شہباز شریف کا نام نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بلکہ عوامی فلاح کی نظیر کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سوئم: وزیرِ خزانہ کی کارکردگی سکروٹنی کی متقاضی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہرگز وہ غلطی نہ کریں جو سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے اوائل چند ماہ میں کی۔
اُس وقت بڑے فین فئیر کے ساتھ اسد عمر کو وزیرِ خزانہ بنا کر لایا گیا لیکن اُن کی فیصلہ سازی کی تاخیر اور نااہلی کا خمیازہ پاکستان نے بڑے کڑے انداز میں بھگتا۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ موجودہ وزیرِ خزانہ کی کارکردگی کسی طور اسدعمر کی کارکردگی سے بھی بہتر نہیں۔
اس سے قبل کہ تاخیر ہو جائے اور مفتاح اسماعیل موجودہ حکومت کے لیے اسد عمر ثابت ہوں، وزیراعظم صاحب کو ان کی کارکردگی کی کڑی جانچ کرنی ہو گی۔
مشکل فیصلہ لینے میں تاخیر کا خمیازہ آج پاکستان کے عوام یکمشت قیمتوں اور مہنگائی میں ہول ناک اضافے کی صورت برداشت کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ المناک معاشی حالات کی ذمہ دار عمران خان کی سابقہ حکومت ہے لیکن مخلوط حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مشکل فیصلوں کے تسلسل کا آغاز ہو جانا چاہیے تھا جس میں وزیرِ خزانہ کی تاخیر آج منفی خمیازہ دکھا رہی ہے۔
صرف یہی نہیں، مسلم لیگ ن کے اندر بھی مفتاح اسماعیل کو بھرپور اعتماد حاصل نہیں اور پارٹی کے کئی سرکردہ رہنما اور کئی اراکینِ پارلیمان وزیرِ خزانہ کی کارکردگی پرتحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
مزید برآں ملک کی تاجر برادری، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی اکثریت بشمول اور خصوصاً کراچی کا کاروباری طبقہ وزیرِ خزانہ پر کچھ خاص اعتماد نہیں رکھتا۔
یہ تمام عناصر مل کر نہ صرف مسلم لیگ ن کی کاروباری طبقے کے ساتھ ریپوٹیشن بلکہ ڈیلیور کرنے کی صلاحیت اور پرفارمنس کارڈ کو بھی اگلے کچھ عرصے میں شدید متاثر کر سکتے ہیں۔
اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف تاخیر سے کام نہ لیں اور زبانِ خلق کو نقّارۂ خدا جانیں۔
لگے ہاتھوں صرف وزیرِ خزانہ ہی نہیں وفاقی کابینہ کی بالعموم اور چند وفاقی وزرا کی بالخصوص کارکردگی سکروٹنی کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف ہرگز ہرگز وہ غلطیاں رونما نہ ہونے دیں جو سابق وزیراعظم عمران خان کے اوّلین سو دنوں میں ہوئیں اور جن کے نتائج آخری چند روز تک بھگتے گئے اور جن کی ہی وجہ سے اب بطور وزیراعظم عمران خان کا مکمل ٹریکریکارڈ داغدار ہو چکا ہے۔
موجودہ کابینہ کے چند وزرا کرام روایتی بیوروکریٹک انداز سے وزارت چلانے اور سیاسی سست روی کے عمل کا شکار ہیں۔
بطور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جس طرح اپنی ٹیم کو چوکس اور مستعد رکھنے کے ماہر کے طور پر پہچانےجاتے رہے ہیں، بطور وزیراعظم بھی اپنی ٹیم میں وہی روح پھونکے جانے کا انتظار ہے۔
کوئی شک نہیں کہ حالات بہت خراب ہیں اور بہتری کی فی الحال کوئی فوری صورت نظر نہیں آتی۔
انہی حالات کی وجہ سے لیجنڈری ’شہباز سپیڈ‘ بھی فی الحال متاثرین کے شاملِ حال ہی نظر آتی ہے لیکن جب اوکھلی میں دیا سَر تو موسل کا کیا ڈر ۔۔۔۔اب جبکہ معیشت کی خودُکش جیکٹ سیاسی ٹائمر کے ساتھ باندھ ہی لی ہے تو جان مار کر کوشش کرنی ہے کہ بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنا کر اس دھماکے کو ہر صورت روکا جائے۔
لیکن اس کے لیے چند ایک بڑی اھم تبدیلیاں وقت ضائع کیے بغیر درکار ہیں تاکہ شہبازسپیڈ واپس ٹریک پر آ سکے اور بھلے ایک متوازن رفتار سے ہی سہی مگر پاکستان سپیڈ میں ڈھل کر ملک کو ترقی اور خوش حالی کے ہمواراور دیرپا مستحکم سفر پر روانہ کر سکے۔
وزیراعظم شہباز شریف یہ سب کر سکتے ہیں۔ صرف وزیراعظم شہباز شریف ہی ایسا کر سکتےہیں۔
کالم کے اختتام پر: رہ گئے عمران خان تو وہ بھلے چُھٹی کے روز ہی سہی، جتنے مرضی احتجاج کر لیں، عوام اُن کی کال پر اب نکلنے والے نہیں، نہ ہی وہ اپنی موجودہ حکمتِ عملی سے حکومت کی چُھٹی کروا سکتے ہیں۔
بروز اتوار دیکھ لیجیے گا کتنے لوگ احتجاج کی کال پر نکلیں گے۔ بطور وزیراعظم تو عمران خان پر ناکامی کا ٹھپّہ لگ چکا ہے، بطور اپوزیشن لیڈر اگر عمران خان اپنی موثر اور جارحانہ ساکھ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اپنی حکمتِ عملی میں چند فوری تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ اس کے لیے ’عمران خان کے لیے چند مفتاور مفید مشورے‘ آئندہ کالم میں۔
Source