Copyright Policy Privacy Policy Contact Us Instagram Facebook
Top Rated Posts ....
New Orleans: At least 10 dead after a vehicle crashes into the crowd during new year's celebration New Orleans: At least 10 dead after a vehicle crashes into the crowd during new year's celebration New Orleans Attack: What we know about suspect Shamsud-Din Jabbar New Orleans Attack: What we know about suspect Shamsud-Din Jabbar Big shock for PTI: Former G-B CM Khalid Khurshid sentenced to 34 years in prison Big shock for PTI: Former G-B CM Khalid Khurshid sentenced to 34 years in prison Breaking News: Pak Army pardoned the convictions of 19 culprits of May 9 attacks Breaking News: Pak Army pardoned the convictions of 19 culprits of May 9 attacks New Orleans vehicle attack: Attacker turned out to be a Muslim New Orleans vehicle attack: Attacker turned out to be a Muslim Genetically altered cow produces milk with human insulin Genetically altered cow produces milk with human insulin




اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک تحقیق کے مطابق آئندہ دس برسوں میں تین کروڑ لڑکیوں کو ان کے جنسی اعضا کے کاٹے جانے کا خطرہ درپیش ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں ساڑے بارہ کروڑ ایسی خواتین زندہ ہیں جو اس مرحلے سے گزرچکی ہیں لیکن جن ممالک میں اس رسم کا رواج ہے ان میں سے بیشتر ملکوں میں اب اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔

بعض افریقی، مشرق وسطیٰ اور ایشیائي برادریوں میں خواتین کے جنسی اعضا کاٹے جانے (ایف جی ایم) کا رواج ہے۔ان کا خیال ہے کہ اس سے لڑکی کی دوشیزگی یا کنوار پن برقرار رہتا ہے۔
اسے بعض معاشروں میں لڑکیوں کا ختنہ بھی کہا جاتا ہے اور لڑکیوں کی دوشیزگي کو شادی تک برقرار رکھنے کے لیے اس پر بطور رسم عمل کیا جاتا ہے۔
یونیسیف لڑکیوں کے جنسی اعضا کے کاٹے جانے یا ختنے کی رسم کا خاتمہ چاہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اطفال فنڈ کے سروے کو اس مسئلے پر اب تک کا سب سے جامع سروے مانا جا رہا ہے۔ اس میں یہ پایا گیا ہے کہ خواتین اور مرد دونوں میں اس رسم کی حمایت کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
یونیسیف کی نائب اکزیکٹیو ڈائریکٹر گیتا راؤ گپتا کا کہنا ہے کہ ’ایف جی ایم لڑکیوں کی صحت، ان کی بھلائی اور خود اختیاری کے حق کی خلاف ورزی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے خلاف صرف قوانین وضع کرنے سے بات نہیں بنے گی۔‘
’لڑکیوں کا ختنہ: اعداد و شمار کا جائزہ اور تبدیلی کی تلاش‘ نامی اس سروے کو واشنگٹن ڈی سی میں ریلیز کیا گیا۔
اس کے لیے گذشتہ 20 سال کے دوران ان 29 افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اعداد و شمار جمع کیے گئے جہاں لڑکیوں کا ختنہ اب بھی ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ پایا گیا ہے کہ تیس سال پہلے کے مقابلے میں حالات بہتر ہوئے ہیں اور اب لڑکیوں کے ختنے کا خطرہ نسبتاً کم ہے۔

رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ کینیا اور تنزانیہ جیسے ملکوں میں آج کی لڑکیوں کو اپنی ماؤں کے مقابلے یہ خطرہ تین گنا کم ہے جبکہ وسط افریقی جمہوریہ بینن، عراق، لائبیریا اور نائیجیریا میں یہ خطرہ نصف ہو گیا ہے۔
لیکن صومالیہ، گنی، دیبوتی، مصر میں یہ آج بھی عام ہے جبکہ چاڈ، گمبیا، مالی، سینیگال، سوڈان اور یمن میں اس میں کچھ کمی آئي ہے۔
چاڈ، گنی اور سرائیالیون میں خواتین کے مقابلے میں مرد اس رسم کے خلاف ہیں۔
راؤ گپتا نے کہا ’اب یہ چیلنج ہے کہ لڑکیوں، خواتین، لڑکوں اور مردوں کو واضح اور پرزور انداز میں آواز بلند کرنا چاہیے اور یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ اس خطرناک رسم کو ترک کرنا چاہتے ہیں۔‘
لڑکیوں کے جنسی اعضا کاٹے جانے میں شدید طور سے خون کا بہنا، پیشاب کرنے میں تکلیف کا سامنا، انفکشن، بانجھ پن اور نوزائدہ بچے کی موت کا خطرہ شامل ہوتا ہے۔


Source: BBC News




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...