Top Rated Posts ....

Who will be responsible if someone insults that judge in public? Justice Athar Minallah's remarks

Posted By: Muzaffar, September 08, 2022 | 10:37:38


Who will be responsible if someone insults that judge in public? Justice Athar Minallah's remarks


سوساٹی اتنی پولرائزڈ ہے کہ فالورز اپنے مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہوجائے تو کون ذمہ دار ہوگا؟ جسٹس اطہر من اللہ۔


Youtube



خاتون جج کو دھمکی دینے پر توہینِ عدالت کیس میں چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہینِ عدالت ہے، دوسری جوڈیشل توہینِ عدالت اورتیسری فوجداری توہینِ عدالت، عدالت کی اسیکنڈلائزیشن فردوس عاشق اعوان سے متعلق ہے، یہ کرمنل توہینِ عدالت ہے جو زیرِ التواء مقدمے سے متعلق ہے۔

انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہینِ عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاؤس جی کیس دیکھیں، جس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں، فیصلے میں حوالہ توہینِ عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اتنی پولیورائزڈ سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بے عزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟ ہم نے وکلاء تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے، ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈ لائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی۔

چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیا سابق وزیرِ اعظم لا علمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے، جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے، ہمیں احساس ہے کہ اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کا جواب ان 2 عدالتی فیصلوں کے مطابق ہے؟ اس عدالت کو کوئی مرعوب نہیں کر سکتا، ہم نے قانون کے مطابق جانا ہے، پچھلی مرتبہ آپ کو سمجھایا تھا، جواب سے لگتا ہے کہ سنگینی کا احساس نہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے جواب کا پیرا گراف 2 دیکھیں۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ شوکاز نوٹس کا کیا جواب ہے؟ کیا آپ شوکاز نوٹس کا پیرا 5 پڑھیں گے؟ حامد خان صاحب میں آپ سے شوکاز نوٹس کے جواب کا پوچھ رہا ہوں، شوکاز نوٹس میں کرمنل اور جوڈیشل توہینِ عدالت دونوں کا ذکر ہے۔

حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، شہباز گِل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا، یہ عدالت اس بات سے بہت آگاہ ہے، آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کرنا چاہتے تو آپ کی مرضی، کیا اگر سپریم کورٹ کے جج کے بارے میں یہ الفاظ ہوتے تو یہی جواب ہوتا؟ ضلعی عدلیہ کے ججز کی عزت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج جیسی ہے۔

وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مجھے جواب کا پورا پیرا گراف پڑھنے دیں، اگر کسی جج کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو رنجیدہ ہوں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کسی جج کے جذبات نہیں ہوتے، جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی، وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے، اس کورٹ نے آپ کو طریقے سے گریویٹی سمجھا دی ہے، گزشتہ سماعت پر باور کرانے کی کوشش کی، اس عدالت میں سب کو عزت دی جاتی ہے اور دی جاتی رہے گی۔

حامد خان نے کہا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ وہ عدلیہ اور خواتین کا احترام کرتے ہیں، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ عمران اور ان کے سپورٹرز خاتون جج سے متعلق کچھ نہیں کریں گے۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیسے ایک سیاسی رہنما جلسے میں کسی جج کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ سکتا ہے؟ جج کے خلاف کارروائی کے لیے ایک فورم ہے، عوامی جلسہ وہ فورم نہیں۔

حامد خان نے جواب دیا کہ لیگل ایکشن کا مطلب شکایت بھی ہے، اس فیصلے کےخلاف نظرِ ثانی وغیرہ بھی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بھول جائیں کہ کسی جج کی فیلنگز ہرٹ ہوئیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ خاتون جج ہرٹ ہوئی ہوں گی، عمران خان نے گفتگو میں ایکشن کے ساتھ لیگل کا لفظ مس کر دیا تھا۔

جسٹس بابر ستار نے کہ کہ ایک لیڈر پبلک ریلی میں کیسے کہہ رہا ہے کہ جج کے خلاف لیگل ایکشن لیں گے؟ جج کے خلاف لیگل ایکشن لینے کا بھی طریقہ بتایا گیا ہے، اس کا طریقہ یہ نہیں کہ آپ عوامی مقام پر جلسے میں یہ باتیں کریں؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ قانون سے لا علمی کوئی ایکسکیوز نہیں۔

حامد خان نے کہا کہ لیگل ایکشن لینا کسی کا بھی قانونی حق ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، سیاسی رہنما نے کوئی پشیمانی نہیں دکھائی، احتساب عدالت کے باہر بھی وہی کچھ کہا جو ہم یہاں چلا سکتے ہیں، عمران خان جواب میں مسلسل اپنے عمل کو جسٹیفائی کر رہے ہیں جو دھمکی جیسا ہے، کیا جواب کہہ رہا ہے کہ توہینِ عدالت کا فیئر ٹرائل دیا جائے؟ جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ دھمکی آمیز تھے۔

اس موقع پر حامد خان نے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ کے لیے اور زیادہ مہلک ہو گا، اس کیس میں عمران خان نے کہا تھا کہ شرمناک کا لفظ ماتحت عدلیہ کے لیے استعمال کیا، اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے عمران خان کو متنبہ کیا تھا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان نے پشاور جلسے میں آزاد عدلیہ کی بات کی، تمام پارٹی کارکنان کو منع کیا گیا کہ خاتون جج سے متعلق کوئی سخت الفاظ نہ کہیں۔

جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا آپ کے مؤکل اپنے بیان کا کوئی جواز پیش کرنا چاہتے ہیں؟ عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے، تقریر اور توہینِ عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہیں، عمران خان کے حالیہ بیانات سے بھی لگتا ہے کہ انہیں کوئی پچھتاوا نہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا توہینِ عدالت کیس میں ٹرائل چلایا جائے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ اپنے عمل کو جسٹیفائی کر رہے ہیں تو مطلب عمل پر پچھتاوا نہیں۔

عدالتی سوالات پر عمران خان نے وکیل حامد خان سے مشورہ کیا کہ پوچھ کر بتائیں، میں روسٹرم پر آنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کسی جج کا نام لیے بغیر کی گئی توہین پر بھی سپریم کورٹ نے معافی تسلیم نہیں کی، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے جج میں کوئی فرق نہیں، بار بار سمجھا رہے ہیں کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔


Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...