Allama Iqbal's poetry on the death of British Queen Victoria
Posted By: Faisal , September 09, 2022 | 10:30:38Allama Iqbal's poetry on the death of British Queen Victoria
برطانوی ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر علامہ محمد اقبال کا لکھا مرثیہ جو لاہور کے ایک ماتمی جلسہ میں پڑھا گیا۔
اس کے چند اشعار
آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آ گیا
کل عید تھی تو آج محرم بھی آ گیا
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا
دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے
کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے
اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
تو جس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہ دل
رخصت ہوئی جہاں سے وہ تاجدار آج
اے ہندتیرے سرسے اُٹھا سایہ خدا
اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
ہلتا تھا جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے
(باقیات اقبال صفحہ 92-74 طبع دوم 1966ء)
علامہ اقبال نے ملکہ وکٹوریہ کیلئے قصیدہ کب اور اس کیسے لکھا اس کی تفصیل بی بی سی اردو کے مضمون میں یوں درج ہے۔
’بانگ درا‘: اقبال کی ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر لکھی گئی نظم جسے انھوں نے اپنے مجموعہ کلام میں شامل نہ کیا
22 جنوری 1901 کو انگلستان پر ایک طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی ملکہ وکٹوریہ 81 برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔ انھوں نے تخت برطانیہ اور اس کی نوآبادیوں پر 63 برس تک حکومت کی۔ ان کے عہد میں سلطنت برطانیہ اس قدر وسیع ہوئی کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔
خرم علی شفیق نے اپنی کتاب ’اقبال ابتدائی دور‘ میں لکھا ہے کہ ’مسلمانوں کی طرف سے ملکہ وکٹوریہ کو سپاس نامہ پیش کرنے کی تجویز پیش ہوئی تھی جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اقبال کے استاد میر حسن نے کہا تھا کہ یہ ایسا شاندار ہو جس سے معلوم ہو جائے کہ کل کی فاتح قوم نے آج کی ملکہ کو پیش کیا ہے۔‘
اقبال اس وقت تو یہ سپاس نامہ نہ لکھ سکے مگر جب ملکہ وکٹوریہ کی وفات ہوئی تو انھیں صرف دو تین روز بعد ایک تعزیتی جلسے میں ملکہ کا منظوم مرثیہ پڑھنے کا موقع ملا۔
خرم علی شفیق لکھتے ہیں کہ ’یہ تجربہ ان کی تخلیقی صلاحیت کو ایک انوکھی انتہا پر لے گیا۔ اقبال آخر اس قوم کے فرزند تھے جس نے تاج محل بنایا تھا۔ اب وہ وسائل نہ سہی مگر ایسی نظم ضرور تعمیر کر سکتے تھے جو دنیا بھر کے تعزیتی پیغامات میں ممتاز دکھائی دے۔‘
اقبال نے اپنی اس نظم کا عنوان ’اشک خوں‘ رکھا تھا۔ نظم میں دس بند تھے اور ہر بند میں گیارہ اشعار۔ ہر بند میں یکساں تعداد اشعار نے نظم کی ظاہری صورت میں ایک شان پیدا کر دی، یہ نسخہ اقبال نے بعد میں اپنی مشہور ترین نظموں میں شان و شکوہ پیدا کرنے کے لیے کئی بار استعمال کیا۔ ان نظموں میں طلوع اسلام اور مسجد قرطبہ کے نام سرفہرست ہیں۔
گیان چند نے اپنی کتاب ’ابتدائی کلام اقبال، بہ ترتیب مہ و سال‘ میں غلام رسول مہر کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ ’ملکہ وکٹوریہ کی وفات 22 جنوری 1901 کو ہوئی اور قیاس ہے کہ جس تقریب میں یہ نظم پڑھی گئی وہ 23 یا 24 جنوری کو منعقد ہوئی تھی۔ دو ایک دن میں 110 اشعار کی نظم لکھ دینا اقبال کی زودگوئی اور پرگوئی کی دلیل ہے۔‘
یہ مرثیہ مطبع خادم التعلیم لاہور سے بھی شائع ہوئی اور مطبع مفید عام لاہور سے بھی۔ افضل حق قریشی نے اپنے مضمون ’باقیات اقبال‘ میں مطبع مفید عام لاہور کے سرورق کی یہ نقل دی ہے: ’اشک خوںیعنی ترکیب بند جو حضور ملکہ معظمہ مرحومہ محترمہ کے انتقال پرملال پر مسلمانان لاہور کے ایک ماتمی جلسے میں پڑھا گیا۔ ازخاکسار اقبال۔‘
خرم علی شفیق نے لکھا ہے کہ ’اس نظم کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا جس کے بارے میں خیال ہے کہ اقبال نے خود ہی کیا تھا۔‘
خرم علی شفیق نے لکھا ہے کہ ’ملکہ وکٹوریہ کی وفات عید کے دن ہوئی تھی، چنانچہ اقبال نے اس نظم میں ہلال عید سے خطاب کر کے ایک طرف اسے وہ خاص تعلق یاد دلایا جو اسے ان کی قوم کے ساتھ تھا۔ مثلاً مسلمانوں کا قومی نشان دوسری طرف موجودہ صورتحال کی مناسبت سے خوشی کے چاند سے غم کی بات کہہ دی اور اس کی خنجر جیسی شکل پر خاص توجہ دی۔‘