Sarah murder case: Ayaz Amir exposes his son and admits his fault as father in his column
کہنے کو کیا رہ گیا ہے۔ ۔۔ ایاز امیر
پہلی اطلاع پر یقین نہ آیا۔ پھر پیروں تلے زمین ہلِ گئی۔ کچھ یہ خیال تھا کہ شاید زخمی ہونے کی بات ہوئی ہو۔ اسی لیے ہر ایک سے کہا کہ فوراً فلاں جگہ پہنچئے۔ چند لمحوں میں البتہ موت کا پتا چلا تو جیسے زمین پر اندھیرا چھا گیا ہو۔
الفاظ ناکافی ہیں‘ باتیں فضول۔ ایک دو دفعہ ہی ملا تھا‘ اتنی خوبصورت‘ ذہین اور معصوم لڑکی۔ اپنے کمبخت کو اُس کے سامنے کہا تھا کہ تم اس کے قابل نہیں لیکن قابل ہونے کی کوشش کرو۔ اب سوچتا ہوں کہ کچھ اور بھی کہنا چاہیے تھا۔ ذہن میں خیال اٹھتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جاتا تو یہ نہ ہوتا‘ فلاں چیز ہو جاتی تو شاید یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ انسان اپنے بارے میں سوچنے لگتا ہے کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی۔ کون سا میرا کرنا تھا جس کا اثر اوروں پر پڑا۔ اپنی غلطیاں تو ہوں گی‘ تربیت کی غلطیاں ہوں گی لیکن کبھی خیال نہ جاتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ایک تو معصوم جان کا ضیاع اور اوپر سے اُس کے خاندان کو جو صدمہ سہنا پڑا ہے۔ اس معصوم جان نے کیا کیا تھا‘ اس کے ماں باپ نے کیا کیا تھا کہ اُن کو یہ دن دیکھنا پڑا؟
اپنی غلطی جس سے انکار ممکن نہیں یہ تھی کہ خاندان اکٹھا نہ رہ سکا۔ خاندان ٹوٹ جائے تو بچوں پر اثر پڑتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ٹوٹے ہوئے خاندان سے ایسے واقعات جنم نہیں لیتے۔ بس انسان پھر اپنی قسمت کو ہی رو سکتا ہے۔ ہمارا صدمہ البتہ الفاظ تک ہے‘ جو ہوا وہ تو سارہ کے ساتھ ہوا اور صدمہ اُس کا خاندان برداشت کررہا ہے‘ خاص طور پر اُس کے والد۔ اُن کی کیفیت وہی جان سکتے ہیں کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔
ایک بات وضاحت کیلئے کہہ دوں کہ کسی اور قسم کا واقعہ ہوتا‘ کوئی لڑائی ہوئی ہوتی‘ کوئی فائرنگ کا کیس ہوتا‘ کچھ زخمی ہوئے ہوتے‘ کچھ گرے پڑے ہوتے‘ تو میرا ردِعمل یقینا مختلف ہوتا۔ یہ نشان مٹا دو‘ وہ کر دو۔ لیکن یہاں تو دماغ شل ہو گیا اور صرف یہی کہنے کی ہمت رہی کہ کوئی بھاگ کے نہ جائے۔ اور اب جب کچھ دن بیت چکے ہیں‘ دل سارہ کیلئے رو رہا ہے۔ کوئی تدبیر ہو کہ وہ واپس آ جائے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ وہ ایک اور جہاں میں جا چکی ہے اور جو خوشیاں اُسے یہاں نصیب نہ ہوئیں پروردگار سے دعا ہے کہ اُسے وہاں نصیب ہوں۔
وہ ایسی لڑکی تھی کہ مجھے پتا چلا کہ وہاں باہر سے کچھ پیسے بھیجے تھے غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کرنے کی غرض سے۔ گاؤں میں جو ملازمہ ہے اُس نے بتایا کہ کچھ غریبوں میں یہاں پیسے تقسیم ہوئے ہیں۔ پتا چلا سارہ نے بھیجے تھے۔ جب دونوں مجھے ملے تھے اور اپنے بیٹے کو میں نے کہا تھا کہ تم اُس کے قابل نہیں۔ شاہنواز کو تاکید کی کہ اپنی عادتیں بدلو اور سارہ سے کہا کہ کسی غرض سے بھی پیسے نہیں بھیجنے۔ بگاڑ بہت ہو جائے تو ایسی باتوں کا اثر کیا رہتا ہے؟ اور جیسے اوپر عرض کیا بگاڑ ہو جائے تو انسان سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اس بگاڑ میں میرا حصہ کتنا ہے۔
میری ذاتی عادات کبھی بھی مثالی نہیں رہیں۔ شادیاں ہوئیں اور ٹوٹیں۔ جیسے کہ کہہ چکا ہوں ایسی باتوں کا اثر بچوں پر پڑتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر ٹوٹے ہوئے خاندان سے بربریت جنم نہیں لیتی۔ بیٹے سے زیادہ ملاقات نہ ہوتی تھی‘ وہ اپنی دنیا میں رہتا تھا لیکن جب بات کرنے کا موقع ملتا تو میں کہتا کہ زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے‘ اسے برباد نہ کرو۔ زندگی میں اتنا کچھ ہے اس کی خوشیوں کو سمیٹنے کی کوشش کرو۔ ایک بات البتہ واضح ہے کہ ذلیل اور خطرناک نشوں کے سامنے انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ ان نشوں کا انسان غلام بن جاتا ہے۔ نشہ محض شراب کا نہیں بلکہ اس کے اوپر چرس اور گردے کا۔ پھر نیند کی گولیوں کا استعمال۔ سگریٹوں کا مسلسل پیئے جانا۔ ہاں یہ سوال ضرور اٹھ سکتا ہے کہ نشہ تو بری چیز ہے لیکن نشے کی نوبت اور حالت تک کوئی پہنچا کیسے؟ اس میں تمہارا کتنا ہاتھ تھا؟ اس کا کیا جواب دے سکتا ہوں۔ اولاد غلط راستے پر چل نکلے تو بہت سے محرکات ہوتے ہیں۔ لیکن محرکات کے ذکر سے صفحات کالے کرتا رہوں تو اُس سے کیا سارہ کے ماں باپ کی تشفی ہو سکے گی؟ وہ معصوم جان تو گئی۔ اُس کے والد یوں سمجھئے زندہ رہتے ہوئے مر گئے۔ لیکن ایک سوال دل میں اٹھتا ہے۔ پہلی بار جب میں سارہ سے ملا تھا تو میں نے پوچھا اور شاہنوار ساتھ بیٹھا تھا کہ تم اس لڑکے کو جانتی نہیں تھی؟ اس کی عادات سے واقف نہ تھی؟ اور سارہ نے کہا: میں سب کچھ جانتی ہوں‘ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ایسے جواب کے بعد انسان کیا کہے۔
اور یا تو یہ پہلی بار ہو رہا ہوتا۔ دو شادیاں پہلے ہو چکی تھیں اور جلد ہی ختم ہوئیں۔ پہلی شادی تو آٹھ دن بھی نہ رہی۔ آٹھویں روز میری پہلی بہو نے مجھے فون کر کے کہا کہ انکل میں اس شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ وہ لڑکی بھی خوبصورت‘ ذہین اور سلجھی ہوئی تھی۔ دوسری بہو‘ وہ بہت پڑھی لکھی‘ خوبصورت اور سلجھی ہوئی خاتون تھی۔ سارہ انعام سے یہ تیسری شادی تھی۔ ویسے تو اسلام آباد پھیلا ہوا شہر ہے لیکن جسے عرفِ عام میں ایلیٹ طبقہ کہا جاتا ہے اُس کی دنیا نسبتاً چھوٹی اور محدود ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی جانکاری رکھتے ہیں۔ اسلام آباد کا جو ایک خاص طبقہ ہے اُس میں لوگ شاہنواز کو جانتے تھے۔ اُس کی عادات سے واقفیت رکھتے تھے۔ چکوال آنا ہوتا تو یہی حرکات ہوتی تھیں۔ نوجوانوں میں اُس کی دوستی تھی لیکن جو اُسے جانتے تھے اُس کی عادات سے واقف تھے۔ اسی بنا پر شادیوں کے تواتر سے میں حیران ہوتا کہ یہ کیسے ہو جاتی ہیں۔
شاہنواز کرتا تو کچھ تھا نہیں۔ ویلا انسان تھا‘ پیسے میں بھیجتا تھا۔ آج کے زمانے میں ویلے انسان کیا کرتے ہیں؟ ساری ساری رات انٹرنیٹ کی جو دہری کائنات ہے اُس میں گھومتے رہتے ہیں۔ طرح طرح کی ویب سائٹس‘ طرح طرح کے ذریعے آن لائن گفتگو کرنے کے۔ اور کیا کہوں۔ یہ علیحدہ کائنات بن چکی ہے‘ اس کی خوبیاں ہیں اور برائیاں بھی۔ اور پھر منشیات کی دنیا یہ ایک اور دنیا ہے۔ ساری رات آپ نیٹ پر بیٹھے ہوں اور نشہ بھی جاری ہو۔ اُس کے اوپر ٹوٹا ہوا خاندان ہو جس نے یقینا بچوں کی اچھی تربیت نہ کی ہوگی تو پھر بے راہ روی کی داستان کس جگہ دم لے۔
وقوعہ کی صبح جب شاہنواز نے مجھے فون کیا‘ اُس نے کہا کہ مجھے ٹرمینیٹر (Terminator) مارنے آئے ہیں۔ میں نے کہا: کیا بکواس کر رہے ہو؟ اُس نے کہا: اُنہوں نے فولادی کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اِس پر میں نے کہا: ماں سے بات کراؤ۔ یہ اُس کی ذہنی حالت تھی۔ بہرحال اللہ ہی رحم کرے۔ سارہ کا سوچتا ہوں تو نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے والد کا خیال آتا ہے تو دل پکڑ لیتا ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ شاہنواز کو نہیں دیکھوں گا‘ اُس کی کوئی امداد نہیں کروں گا کیونکہ یہ کسی امداد کا مستحق نہیں۔ یہ اسلام آباد پولیس کی مہربانی کہ مجھے بھی اُسی تھانے میں بند کردیا جہاں پر شاہنواز ریمانڈ کاٹ رہا تھا۔ لامحالہ لوگ مجھے ملنے آتے تو کچھ کھانا وغیرہ اُس کی طرف بھی پہنچا دیتے۔ بہرحال اپنے وقت پر مقدمہ چلے گا اور میری دعا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
Source