Oil production cuts: Tension in the relation of Saudi Arabia and United States
Posted By: Saif, October 09, 2022 | 08:11:05Oil production cuts: Tension in the relation of Saudi Arabia and United States
تیل کی پیداوار میں کمی، سعودی عرب اور امریکہ میں خلیج
امریکہ کی سخت مخالفت کے باوجود اوپیک پلس تنظیم کے اس ہفتے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے نے صدر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس اور سعودی عرب کے شاہی خاندان کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے، جو کبھی واشنگٹن کے سب سے مضبوط مشرق وسطی کے اتحادیوں میں سے ایک تھا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے واشنگٹن اور خلیج میں تقریباً ایک درجن سرکاری عہدیداروں اور ماہرین کے انٹرویوز کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔
ان ذرائع نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس نے اوپیک کی پیداوار میں کٹوتی کو روکنے کے لیے سخت محنت کی۔ بائیڈن کو امید ہے کہ انھیں کانگریس کے وسط مدتی انتخابات سے قبل امریکہ میں پٹرول کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ نہیں کرنا پڑے گا۔
حزب اقتدار ڈیموکریٹک پارٹی امریکی کانگریس پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے۔ واشنگٹن یوکرین کی جنگ کے دوران روس کی توانائی کی آمدنی کو بھی محدود کرنا چاہتا ہے۔
امریکی انتظامیہ نے کئی ہفتوں تک اوپیک پلس میں شامل ملکوں کو قائل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں کیں۔
حالیہ دنوں میں توانائی، خارجہ پالیسی اور اقتصادی ٹیموں سے تعلق رکھنے والے سینئیر امریکی حکام نے اپنے غیر ملکی ہم منصبوں پر زور دیا ہے کہ وہ پیداوار میں کٹوتی کے خلاف ووٹ دیں۔
بائیڈن کے توانائی کے اعلیٰ ترین ایلچی آموس ہوچسٹین نے قومی سلامتی کے عہدیدار بریٹ میک گرک اور یمن کے لیے انتظامیہ کے خصوصی ایلچی ٹم لینڈرکنگ کے ساتھ گذشتہ ماہ سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تاکہ اوپیک پلس کے فیصلے سمیت توانائی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
وہ تیل کی عالمی پیداوار میں کٹوتی کو روکنے میں ناکام رہے، بالکل اسی طرح جیسے بائیڈن جولائی میں سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی حکمرانوں کو قائل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
بات چیت کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے ایک ذریعے نے بتایا کہ امریکی حکام نے ’اسے 'ہم بمقابلہ روس' کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، اور سعودی حکام کو بتایا کہ انہیں دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دلیل ناکام ہو گئی۔
انھوں نے مزید کہا کہ سعودیوں کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ مارکیٹوں میں مزید تیل چاہتا ہے تو اسے اپنی زیادہ سے زیادہ پیداوار شروع کر دینی چاہیے۔
امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ دنیا کا نمبر ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس کا سب سے بڑا صارف بھی ہے۔
سعودی حکومت کے میڈیا آفس سی آئی سی نے رائٹرز کی جانب سے ای میل کے ذریعے بات چیت کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز نے بدھ کے روز سعودی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے سعودی عرب کے مفادات اور پھر ان ممالک کے مفادات پر تشویش ہے جنھوں نے ہم پر بھروسہ کیا اور اوپیک اور اوپیک اتحاد کے رکن ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اوپیک اپنے مفادات کو ’دنیا کے مفادات کے ساتھ تولتا ہے کیونکہ ہم عالمی معیشت کی ترقی کی حمایت کرنے اور بہترین طریقے سے توانائی کی فراہمی فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘
ایران کے جوہری معاہدے سے نمٹنے اور یمن میں سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد کی جارحانہ فوجی کارروائیوں کی حمایت سے دستبرداری نے سعودی حکام کو پریشان کیا ہے، جیسا کہ فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد روس کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہیں۔
اوپیک کی کٹوتی کے بعد وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے بلومبرگ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روسی تیل کی قیمتوں میں کمی کے لیے امریکہ کی جانب سے زور غیر یقینی صورتحال کا باعث بن رہا ہے۔
سعودی حکام کی جانب سے بریف کیے گئے ایک ذریعے نے بتایا کہ مملکت اسے 'غیر مارکیٹ پرائس کنٹرول میکانزم' کے طور پر دیکھتی ہے، جسے صارفین کا ایک گروہ پروڈیوسرز کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
بائیڈن کی ہدایت پر مارچ میں امریکی سٹریٹجک پیٹرولیم ریزرو سے 180 ملین بیرل تیل کی فروخت تیل کی قیمتوں میں کمی کا سبب بنا تھا۔ مارچ میں اوپیک پلس نے کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے اعداد و شمار کا استعمال بند کر دے گا، جو ایک مغربی تیل واچ ڈاگ ہے، سعودی قیادت میں خدشات کی وجہ سے امریکہ کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔
جمعرات کو بائیڈن نے سعودی عرب کے فیصلے کو 'مایوس کن' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن تیل کی مارکیٹ میں مزید کارروائی کر سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین جین پیری نے بدھ کے روز کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ اوپیک پلس روس کے ساتھ اتحاد کر رہا ہے۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ پیداوار میں کٹوتی سے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔
امریکی کانگریس میں بائیڈن کے ڈیموکریٹس نے سعودی عرب سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا اور ہتھیار واپس لینے کی بات کی۔
ڈیموکریٹ سینیٹر کرس مرفی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ 'میرے خیال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، یمن جنگ، لیبیا، سوڈان وغیرہ میں امریکی مفادات کے خلاف کام کرنے کے باوجود خلیجی ریاستوں کو اسلحہ فروخت کرنے کا سارا مقصد یہ تھا کہ جب کوئی بین الاقوامی بحران آئے گا تو خلیجی ممالک روس اور چین پر امریکہ کو ترجیح دے سکتے ہیں۔‘
سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے جمعے کے روز فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے امریکی تنقید کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ سعودی عرب تیل یا تیل کے فیصلوں پر سیاست نہیں کرتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’مناسب احترام کے ساتھ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں آپ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس ریفائننگ کی کمی ہے جو 20 سال سے زائد عرصے سے موجود ہے۔‘
Source: BBC Urdu