This drama glorifies toxic men - A critical review of drama "Kaisi Teri Khudgharzi"
Posted By: Muzaffar, December 15, 2022 | 08:17:35
ڈرامہ ’کیسی تیری خودغرضی‘: ’ٹاکسک مرد کو امر کرنا ہے تو اُس کو مار دیں‘
’ہمارا بیٹا غصے کا بہت تیز ہے بالکل تمھاری طرح۔ ہر دن یہی کوشش کرتی ہوں کہ وہ تمھاری طرح نہ بنے۔ جو سب میں نے برداشت کیا، میں نہیں چاہتی کل کو کوئی بھی وہ سب برداشت کرے۔ جانتی ہوں تم سُدھر رہے تھے، بدل رہے تھے لیکن اُس سب کا مداوا تم کبھی نہیں کر سکتے تھے جو تم نے کیا۔ ہاں میں نے تمھیں معاف ضرور کیا لیکن جو سب تم نے کیا وہ میں کبھی بھی بُھلا نہیں پاؤں گی۔‘
پاکستانی شائقین میں مقبول ہونے والا حالیہ ڈرامہ ’کیسی تیری خودغرضی‘ کا اختتام ان ڈائیلاگز کے ساتھ ایک بہتر نوٹ پر ہوا، جب مرکزی کردار مہک، شمشیر کی تصویر سے باتیں کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہر دن اُن کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی اچھی پرورش کر سکیں اور اُسے اچھا انسان بنا سکیں۔
نجی چینل اے آر وائی سے نشرکیا جانے والا ڈرامہ سیریل ’کیسی تیری خود غرضی‘ جہاں شائقین میں بے حد مقبول ہوا اوراُس کی ہر قسط کو یوٹیوب پر لاکھوں ویوزملے، وہیں اِس ڈرامے کی کہانی پر بے حد تنقید بھی ہوئی۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ اس ڈرامے میں بنیادی طور پر ایک ایسے شخص کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، جو اپنی طاقت کے بِل بوتے پر ایک لڑکی اور اُس کے خاندان کو ہراساں کرتا رہا اور بالآخر اس لڑکی کو اسی لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے جو معاشرے کے لیے اچھی مثال نہیں۔
’کیسی تیری خودغرضی‘ میں دانش تیمور (شمشیر)، دُرفشان (مہک)، نعمان اعجاز (دلاور) اور عتیقہ اوڈھو (شمشیر کی والدہ) کے کردار نبھائے ہیں۔
یہ ڈرامہ ایک کرپٹ بزنس ٹائیکون دلاور کے بیٹے شمشیر کے بارے میں ہے جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی مہک سے محبت کرتا ہے۔ مہک اور اُس کا خاندان رشتے سے انکار کرتے ہیں تو شمشیر اپنی اور اپنے والد کی طاقت کے بل پر اُنھیں ہراساں کرتا ہے۔
مجبوراً مہک اور اُس کا خاندان شادی کے لیے مان جاتا ہے۔ شمشیر کے والد دلاور بظاہر اِس رشتے کے لیے رضامند ہو جاتے ہیں لیکن عین شادی کے روز مہک کا قتل کروانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں معجزاتی طور پر مہک زندہ بچ جاتی ہے اور بھاگ کر دوسرے شہر چلی جاتی ہے لیکن پھر شمشیر اُسے ڈھونڈ کے زبردستی شادی کر لیتا ہے۔
مختصراً یہ کہ اس ڈرامے میں دلاور تین بار مہک کو مروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تیسری کوشش میں مہک کی بجائِے اُن کا اپنا بیٹا شمشیر نشانہ بن جاتا ہے۔
محبت یا سٹاک ہوم سینڈروم؟
گذشتہ ہفتے نشر کی جانے والی قسط میں جب مرکزی کردار شمشیر اپنی موت کے قریب ہوتا ہے تو مہک اُس سے اپنی محبت کا اعتراف کرتی ہے۔
ناقدین نے اِس منظر کو سٹاک ہوم سینڈروم سے تشبیہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ آیا ہم ایسے کردار، جو لڑکی اور اُس کے خاندان کو بندوق کی نوک پر ہراساں کرتے رہے ہوں، گلیمرائز کر کے کیا بتانا چاہتے ہیں؟
صحافی فی فی ہارون نے ٹوئٹر پر ڈرامے میں سسپینس اور رومانس کی تعریف کرتے ہوئِے لکھا کہ ’مہک کے پس منظر سے تعلق رکھنے والی نوجوان پاکستانی لڑکیوں نے محبت کا تجربہ نہیں کیا اور وہ نہیں جانتی ہیں کہ رشتوں کو کیسے نبھایا جائے۔ اس لیے قابل فہم ہے کہ وہ اُس واحد آدمی سے قریب ہو جاتی ہے جب وہ بہتر برتاؤ کرنے لگتا ہے۔‘
جس کے جواب میں اداکارہ نادیہ جمیل نے مردوں کے بہتر کرداروں کی ضرورت پرزور دیا اور شمشیر کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’لیکن وہ مہک کے والد اور بھائی پر تشدد کرتا ہے، اُن کو حوالات میں بند کروا دیتا ہے، اُسے اغوا کرتا ہے، اُس کی تذلیل کرتا ہے اور اُسے اُس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور کرتا ہے، پھر اُسے اپنے گھر میں قید کر لیتا ہےاور جب وہ اپنے والد سے ملنے جاتی ہے تو غصہ کرتا ہے۔ آُس کے خاندان کو ہراساں کرتا رہتا ہے۔‘
ناقدین کہتے ہیں کہ جس ملک میں آئے روز ہراسانی کے کیسز سامنے آتے ہوں وہاں ’کیسی تیری خود غرضی‘ جیسے ڈراموں سے ہم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کو نارملائز کر رہے ہیں۔
واضح رہے پاکستان میں ڈرامے تفریح کا ایک بہت بڑا زریعہ ہیں جسےگھروں میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں سمیت نوجوان لڑکے بھی بے حد شوق سے دیکھتے ہیں۔
ایک طویل عرصہ سے بحث جاری ہے کہ کیا ڈرامے معاشرے کا عکاس ہوتے ہیں اور معاشرہ ڈراموں میں دِکھائی جانے والی چیزوں کا کوئی اثر اور سبق لیتا ہے؟
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی ڈرامہ کی کہانی اور موضوع پر تنقید ہو تو اسے بنانے والے دلیل لاتے ہیں کہ یہ ایک فِکشنل کہانی ہے، عام زندگی سے ذرا ہٹ کے ہے اور کہتے ہیں کہ عام زندگی میں ایسا کہاں ہوتا ہے جو فلموں اور ڈراموں میں دِکھایا جاتا ہے۔
جب انہی ڈرامہ نگاروں سے پوچھا جائے کہ کردار اور کہانی کہاں سے آئی تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاشرے سے متاثر ہو کر لکھی گئی۔
’کیسی تیری خود غرضی‘ کے مصنف رادین شاہ نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہی کہا کہ یہ ایک فکشنل یا فرضی کہانی ہے اور حقیقت سے اِس کا کوئی تعلق نہیں۔‘
شمشیر کو کیوں مارا؟
ریٹنگ، ٹی آر پی اور ویوز کی دوڑ میں اب یہ رجحان بھی عام ہے کہ ایک متنازع موضوع کو سنسنی خیز انداز سے پیش کیا جائے اور کوئی متبادل حل دینے کی بجائے کرداروں کی موت اور خودکشی دکھا کر کہانی کو لپیٹ دیا جائے۔
ڈرامہ سیریل ’کیسی تیری خود غرضی‘ کی آخری دو اقساط میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جہاں پہلے شمشیر کی موت دِکھائی گئی اور اس کے بعد اُن کے والد دلاور کو اپنے کیے پر پچھتاتے ہوئے، اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے جائیداد کا بیشتر حصہ مہک کے نام کرتے دِکھایا گیا ہے لیکن اِن اعترافات کے بعد وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔
شمشیر کی موت کے مناظر پر شائقین نے سوشل میڈیا پر کافی مایوسی کا اظہار کیا۔ پڑوسی ملک انڈیا سے بھی شائقین نے لکھا کہ پاکستانی ڈرامے اچھی خاصی کہانی کا المناک اختتام کر کے اس کی جان نکال دیتے ہیں۔
فلموں اور ڈراموں کے تجزیہ نگار حسن چوہدری کہتے ہیں کہ ’ہمارے ڈرامہ لکھنے والے عورتوں سے نفرت کرتے ہیں۔‘
اپنے یوٹیوب چینل سمتھنگ ہاٹ پر صحافی آمنہ حیدر عیسانی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوتے ان کی دلیل تھی کہ اس ڈرامے میں مہک کے ساتھ بُرا ہوتا ہے لیکن اُسے کہیں سکون نہیں ملتا لیکن جب شمشیر بدلنے لگتا ہے اُس کو مار دیا جاتا ہے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ اگر ڈرامہ نگار چاہتے تو ایک پروگریسو خاتون دِکھا سکتے تھے۔ ان کے خیال میں اِس ڈرامے کی کہانی کو مختلف اور بہتر انداز سے بھی بتایا جا سکتا تھا یعنی جب شمشیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ مہک کو شادی ختم کرنے کا اختیار دیتا ہے تو مہک جا سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ مہک ایک ایسے مرد کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔
’آپ کے دماغوں میں ہے کہ ایک ’ٹاکسک مرد‘ کو درست کر کے اُس کو ہم نے امر کرنا ہے تو ہم اُس کو ماردیں۔‘
شمشیر کی موت پر آمنہ نے کہا کہ ’جو لوگ ایک محبت کی کہانی کی تلاش میں تھے وہ بھی خوش نہیں کہ مارا کیوں اور ہم جیسے لوگ جو چاہتے تھے کہ کوئی بدلہ یا سزا ہونی چاہیے تھی، وہ بھی نہ ہو سکا-‘
اس ڈرامہ کی پسندیدگی میں ایک بڑا کردار اس کے اوریجنل ساؤنڈ ٹریک (او ایس ٹی) کا بھی ہے جسے مقبول گلوکار راحت فتح علی خان اور سحر گُل خان نے گایا۔
اِس گانے کی دھن نے شائقین کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کیے رکھا اور ڈرامہ بنانے والوں نے اِس دھن اور گانے کا ہر جگہ بخوبی استعمال کیا۔
بشکریہ: بی بی سی اردو