How can ECP delay elections? No one has the right to delay elections - Chief Justice's important remarks
Posted By: Saif, April 03, 2023 | 08:27:15How can ECP delay elections? No one has the right to delay elections - Chief Justice's important remarks
کسی کے پاس الیکشن التوا کا اختیار نہیں، صرف عدالت تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے،چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے، جس حکم نامے کا ذکر کر رہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ پہلے راؤنڈ میں نو رکنی بینچ نے مقدمہ سنا تھا ، 21 فروری کو سماعت کا حکم نامہ آیا، دو ججز کے اختلافات کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں ، دو ججز نے پہلے دن درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟ 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 4/3 کے فیصلے والی منطق مان لی تو معاملہ اس 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا، فیصلہ یا نو رکنی بینچ کا ہوگا یا پانچ رکنی بینچ کا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نو رکنی بینچ کے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضاکارانہ الگ ہورہا ہے، کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے، عدالت بینچ کی ازسرنو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔
کسی نے نہیں کہا دو ارکان موجود نہیں
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کہا وہ اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں، بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، پانچ رکنی بینچ نے دو دن کیس سنا، کسی نے کہا دو ارکان موجود نہیں، کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ سات رکنی ہے؟ پہلی سماعت پر کوئی جج درخواست خارج کردے پھر بینچ میں نہ بیٹھے تو فیصلہ نیا بینچ کرے گا؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور ازسرِنو سماعت ہوئی، بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا، زیر حاشیہ میں بھی لکھا ہے کہ دو ججز کی آراء ریکارڈ کا حصہ ہیں فیصلے کا نہیں، ریکارڈ میں تو متفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں، ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کرسکے۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ دو ججز نے جو رائے دی تھی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے، حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ اب بنچ سے الگ ہوجائیں۔
جسٹس فائز کا فیصلہ
اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز والے فیصلے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ، عدالتی حکم یا فیصلے کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا ، عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔
سرکلر سے فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا ہے، جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔
Source