What is the reality of viral picture of a grave with a locked door?
Posted By: Atif, May 01, 2023 | 07:45:16
وہ قبر جسے پاکستانی قرار دینے کی انڈین خبر غلط ثابت ہوئی
یوں تو انڈیا اور پاکستان کو تقسیم ہوئے 75 برس ہو چکے ہیں لیکن دونوں ممالک میں آج بھی اگر کوئی سیاسی تنازع نہ بھی ہو تو کبھی کسی فلم تو کبھی کسی اہم واقعے پر بحث ہوتی رہتی ہے۔
تاہم گذشتہ چند روز سے انڈین میڈیا پر ایک قبر کا چرچہ تھا جس کے اوپر ایک سبز رنگ کا گیٹ لگا ہوا تھا اور اکثر انڈین میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے یہ بات رپورٹ کی گئی کہ یہ دراصل پاکستان میں موجود ایک قبر ہے جس پر دروازہ لگانے کا مقصد مرنے کے بعد خواتین کو ریپ ہونے سے محفوظ رکھنا ہے۔
تاہم انڈیا میں ہی فیکٹ چیک کے ایک پلیٹ فارم آلٹ نیوز کی جانب سے کی گئی تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک فیک نیوز تھی اور یہ قبر دراصل انڈیا کے شہر حیدر آباد دکن میں ایک قبرستان میں موجود ہے۔
اس خبر کو بغیر تصدیق کے شائع کرنے پر انڈین سوشل میڈیا پر ان میڈیا پلیٹ فارمز کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ پاکستان کے حوالے سے منفی خبروں کے حوالے سے خبروں کی اشاعت کے حوالے سے ایک مخصوص رویے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
انڈیا میں متعدد نیوز پلیٹ فارمز جن میں انڈیا کی خبر رساں ایجنسی اے این آئی، این ڈی ٹی وی، ورلڈ ان ون نیوز، ہندوستان ٹائمز، دی ٹائمز آف انڈیا اور انڈیا ٹوڈے سمیت دیگر ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز نے اس خبر کو شیئر کیا ہے۔
ان میں سے اکثر پلیٹ فارمز کی جانب سے جس ٹویٹ کو حوالہ بناتے ہوئے یہ خبر دی گئی تھی وہ ایک ٹوئٹر صارف حارث سلطان کی جانب سے کی گئی تھی جنھوں نے آلٹ نیوز کے فیکٹ چیک کے بعد اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے علاوہ معافی بھی مانگی تھی۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کی جانب سے بھی اپنی خبر واپس لیتے ہوئے اس کی وضاحت شائع کی گئی ہے۔
بی بی سی آزادانہ طور پرتو اس بارے میں تصدیق نہیں کر سکا لیکن آئیے جانتے ہیں کہ آلٹ نیوز کی جانب سے کیے گئے فیکٹ چیک میں کیا حقائق سامنے آئے ہیں۔
News agencies and News portals have reported that Pakistani parents are locking graves of their daughters to avoid rape. Thse articles are based on a tweet by an Ex Muslim atheist Harris Sultan, An author of a book 'The curse of God, Why I left Islam'. pic.twitter.com/hx7w9J19rK
— Mohammed Zubair (@zoo_bear) April 30, 2023
انڈیا کے شہر حیدرآباد میں موجود اس قبر پر جالی کیوں لگائی گئی؟
یہ معاملہ شروع اس وقت ہوا تھا جب سوشل میڈیا پر ایک ایسی قبر کی تصویر شیئر کی گئی تھی جس پر لوہے کی سلاخوں سے بنی سبز رنگ کی جالی لگی ہوئی تھی اور اسے ایک تالے کے ذریعے مقفل کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر اس تصویر کے شیئر ہونے کے بعد کچھ ٹویٹس میں دعویٰ کیا جانے لگا کہ یہ تصویر نہ صرف پاکستان سے ہے بلکہ اب ’خواتین کے ساتھ موت کے بعد بھی ریپ سے لوگ اتنے خوفزدہ ہو چکے ہیں کہ انھوں نے قبروں پر جالیاں اور دروازے لگانے شروع کر دیے ہیں۔
انڈین میڈیا کی جانب سے جن ٹویٹس کا سہارا لے کر اس خبر کو شائع کیا گیا تھا ان میں بھی یہی دعویٰ دہرایا جا رہا تھا تاہم پھر انڈیا میں فیک نیوز کو فیکٹ چیک کرنے والے ادارے آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کی جانب سے اس بارے میں تحقیق کی گئی جس کے بعد ایک ایک کر کے حقائق سامنے آنے لگے۔
آلٹ نیوز کی تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ قبر دراصل انڈیا کے شہر حیدرآباد کے ایک قبرستان میں واقع ہے۔ یہ قبرستان مداناپت علاقے کی داراب جنگ کالونی میں موجود مسجدِ سالار ملک کے سامنے واقع ہے۔
ادارے کی جانب سے علاقے میں موجود ایک سوشل ورکر عبدالجلیل سے اس بارے میں بات کی گئی جنھوں نے وہاں مسجد کے مؤزن کے ساتھ اس قبر پر جا کر ایک ویڈیو بنائی۔ اس ویڈیو میں مؤذن بتا رہے ہیں کہ اس جالی کو لگوانے کا مسئلہ مسجد کی کمیٹی کے سامنے زیرِ بحث آیا تھا۔
مؤذن نے بتایا کہ یہ جالی لگوانے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہاں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں لوگوں نے پہلے سے موجود قبروں کو کھود کر وہاں مردے دفنائے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ کیونکہ یہ قبر قبرستان کے دروازے پر موجود ہے اس لیے لواحقین کو یہ بھی ڈر تھا کہ لوگ اس پر چڑھ نہ دوڑیں۔
آلٹ نیوز کے مطابق یہ قبر جس خاتون کی ہے ان کی عمر 70 کے لگ بھگ تھی اور لوہے کی سلاخوں سے بنی یہ جالی کے بیٹے نے نصب کرائی ہے۔
’کوئی انڈین پاکستان کا دفاع کیوں کرے گا؟‘
آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کی جانب سے اس خبر کو فیکٹ چیک کرنے کے بعد انڈیا میں جہاں اکثر افراد ان کی تعریف کر رہے ہیں اور انڈیا میں صحافت پر سوال اٹھا رہے ہیں، وہیں اکثر افراد محمد زبیر کو ’پاکستان کا دفاع‘ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ انڈیا میں فیک نیوز کے بڑھتے رجحان اور منقسم سیاسی فضا میں صحافی محمد زبیر اور ان کے ادارہ آلٹ نیوز کو عموماً مختلف حلقوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گذشتہ برس دلی کی پولیس نے محمد زبیر کو ’مذہبی جذبات مجروح کرنے‘ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ انھوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی پروگرام میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا بیانات منظرِعام پر لانے کے علاوہ ٹوئٹر کے ذریعے اس خبر کو عام کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں اکثر صارفین محمد زبیر کو اس خبر کو فیکٹ چیک کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ دراصل پاکستان میں قبروں سے لاشوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتی کے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ تصویر انڈین میڈیا کی جانب سے شیئر کی گئی تھی وہ حارث سلطان کا ہے جو اپنا تعارف سابق مسلمان کے طور پر کرتے ہیں اور انھوں نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا ’پاکستانی معاشرہ اس حد تک جنسی بیماری کا شکار ہے کہ وہاں لوگوں کو اپنی بیٹیوں کو دفن کرنے کے بعد انھیں ریپ سے بچانے کے لیے قبروں پر تالے لگاتے ہیں۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’ایک اسلام مخالف شخص نے اس بارے میں دعویٰ کیا اور انڈین میڈیا نے کیسے اس فیک نیوز کو پراپیگینڈا کے طور پر استعمال کیا۔‘
اس تصویر کو انڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی شیئر کیا گیا تھا اور اس کی وجہ ماضی میں پاکستان میں میڈیا کی جانب سے رپورٹ کیے جانے والے ایسے واقعات ہیں جن میں مبینہ طور پر خواتین کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔
اس بارے میں اکثر افراد ایسی ٹویٹس بھی کر رہے ہیں جن میں وہ اپنی ٹویٹ پر معافی مانگنے کے ساتھ ایسی خبریں اور ویڈیو کلپس بھی شیئر کرتے ہیں جن میں اس گھناؤنے جرم کے بارے میں خبر دی گئی ہو۔
ماریہ نامی ایک صارف نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے لکھا کہ ’جن پاکستانیوں نے اس تصویر کو برے طریقے سے شیئر کیا اور کہا کہ خدایا ہمارا ملک تو ایک جہنم ہے کو اس بارے میں معذرت کرنی چاہیے۔
’فیک نیوز کو سچ سمجھنا ایک سوشل میڈیا جرم قرار دینا چاہیے۔‘
انس نامی ایک صارف نے کہا کہ ’یہ وجہ ہے کہ خبر کو فیکٹ چیک کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم ہر اس چیز کی حمایت کرتے ہیں جو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ سچ ہے۔ ‘
تزین نامی صارف نے محمد زبیر کا اس حوالے سے تھریڈ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ تھریڈ ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو فوراً غلط خبریں پھیلاتے ہیں اور اس کی تصدیق نہیں کرتے۔‘
صحافی فرزانہ شاہ نے پاکستانی سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے ایک اہم موضوع کی جانب توجہ دلوائی۔ لگ بھگ دو برس قبل ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں انڈین خبررساں ادارے اے این آئی پر پاکستان کے خلاف پراپیگینڈا کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بارے میں بی بی سی کی جانب سے بھی ایک تفصیلی رپورٹ کی گئی تھی۔
فرزانہ شاہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی سیاست دان اپنے اہداف کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اے این آئی ایک بار پھر فیک پراپیگینڈا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔‘
Source: BBC Urdu