جیسمین منظور کامسئلہ بیشترپاکستانیوں کے لئے عدم تحفظ وزیراعظم کے منہ پرطمانچہ
Posted By: Javed Shuja, July 27, 2013 | 03:37:39
مجھ سمیت وہاں موجودتقریباًسبھی لوگوں کے لئے وہ لمحہ انتہائی حیرت انگیزتھاجب جیسمین منظورجیسی بولڈاور کسی حدتک منہ پھٹ کہے جانے والی اینکرنوازشریف کے سامنے گویا”ٹوٹ کربکھر”سی گئی۔
ایک اورپاکستانی خاتون اینکرنسیم زہرہ نے درست طورپرجیسمین کی اس کیفیت کو”وزیراعظم کے منہ پرطمانچہ” قراردیاہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ یہ کیفیت صرف جیسمین منظورہی کامسئلہ نہیں بلکہ یہ بیشترپاکستانیوں کے لئے عدم تحفظ کی صورت ان کے سامنے کھڑاہوتاہے۔ایک ایسے مسئلہ کی صورت جسےحل کرنے کے لئے کوئی آپ سے تعاون کوتیارنہیں ہوتا۔
آپ کو موصول ہونے والی بھتہ کی پرچی ہویااملاک پرقبضہ کاکوئی معاملہ،خصوصاپاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی کمائی کومحفوظ بنانااسے کمانے سے زیادہ مشکل ہوچلاہے۔
آپ جیسمین منظورکے پیشہ ورانہ طرزکودیکھ کراسے کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ریاستی اداروں کی بری کارکردگی کے نتیجہ میں پاکستان میں صرف صحافی ہی نہیں ہروہ پروفیشنل جس کے وابستگان نے ”طرح طرح”کے لوگوں کاسامناکرناہوتاہے محفوط نہیں ہے۔
ایسے لوگوں کوجنہوں نےسنگین یا خطرناک سچ لوگوں تک پہنچانے کاکام کرناہو،انہیں ناتوان کے باسزسپورٹ کرتے ہیں،ناہی حکومتی سطح پرکچھ ایساکیاجاتاہے،رہے قانون نافذکرنے والے ادارے تووہ بہت احسان کریں تویہ کرتے ہیں کہ جس صحافی سے ان کے تعلقات اچھے ہوں اسے بلا کرکہہ دیتے ہیں کہ”ہم نے مجرم پکڑاہے جس نے انکشاف کیاہے کہ تم ہٹ لسٹ پرہوشہرچھوڑدو”۔یہ مہربانی بھی پاکستان کے سب سے بڑے میڈیاگروپ جنگ کے مقتول صحافی ولی بابرکے قتل اوراس کے بعدہوئے شورشرابے کا نتیجہ ہیں۔
البتہ المناک حقیقت یہ ہے کہ ولی بابرکے ناصرف قاتلوں کاکچھ پتہ نہیں بلکہ کہاجاتاہےکہ کراچی میں مخصوص سیاسی وابستگیاں رکھنے والے وہ تمام مشتبہ افرادبھی ٹھکانے لگائے جاچکے ہیں۔جن پرولی بابرکے قتل کے سفاک واقعہ میں ملوث ہونے کاشبہ تھا۔
جیسمین منظورکامسئلہ اس لئے سنگین ہے کہ خود کودوسرا بڑاچینل قراردینے والے سماء ٹی وی کی میزبان کے طورپر جیسمین منظورنے یقینااپنے پروگرام کی مقبولیت کے باعث آنے والے اشتہارات کے ذریعے ادارے کوکروڑوں روپے دلوائے ہوں گے۔اگراس میں چندہزاریاایک بارچندلاکھ خرچ کرکے کوئی ایسامیکنزم بنالیاجائے جودوران کام ،صحافی کوتحفظ کااحساس دے سکے تویہ ادارے اورفرددونوں ہی کے لئے بہترہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں صحافیوں کودھمکیاں ملناکوئی نئی بات نہیں ،کراچی پریس کلب کے پرانے ممبرزمیں سے ایک ،گزشتہ دنوں اسلام آبادآئے جہاں وہ کہنے لگے کہ،کئی برسوں سے کراچی کے صحافیوں کوگولیوں بھرے لفافے بھیجنا،دفاترمیں دھمکی آمیزکالزکرنا،موٹرسائیکلزیاگاڑیوں پرگولیاں ٹانک جانا،دوران پروگرام شرکاء کی جانب سے تشددکاشکاربنانا وغیرہ کاسلسلہ جاری ہے۔
یہ ساراکام جوکرتاہے قانون نافذکرنے والے ادارے بھی انہیں جانتے ہیں اوروہ ادارے بھی جن کاکام ہی جوکچھ ہورہاہواس کی خبررکھناہوتاہےلیکن ان کی شان بے نیازی نے حالات کو یہاں تک پہنچادیاہے کہ اب معاملہ صحافیوں کوقتل کرنے سمیت ناپسندیدہ صحافیوں کو شہربدرکرنے تک آپہنچاہے۔
یقیناً اس سارے معاملے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے ساتھ خود میڈیابھی ذمہ دارہے جودم پرپاؤں آنے پربلبلاتاہے لیکن “اپنی نبیڑ، دوسرے کوناچھیڑ” کے فلسفہ پرعمل کرکے صحافت سے پیشہ وارانہ بددیانتی کامرتکب بھی ہوتاہے۔
جیسمین منظورسے کہاگیاہے کہ وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہیں،لہذابلٹ پروف کارپرسفرکریں اورشہرچھوڑ دیں،جس کے بعد وہ گزشتہ 2ماہ سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات میں جیسمین منظورکی شکایت پرنوازشریف نے انہیں تحفظ فراہم کرنے کاکہا توتھامگراس واقعہ کو48گھنٹوں سے زائد گزرچکے ہیں لیکن خودجیسمین کی ٹویٹس بتاتی ہیں کہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پاکستان کاسب سے بڑا شہرکراچی جوعملاًبھتہ خوروں،سیاسی وفرقہ پرست دہشت گردوں اورانتپاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے،حکومت اورریاست سے چیخ چیخ کرکہہ رہاہے کہ اسے بچالو،جناب وزیراعظم اس پکارپرکان تودھرنے ہوں گےوگرنہ مزیدجیسمینوں اورولی بابروں کے پیداہونے کاانتظارکریں۔آج ہم،کل آپ سہی۔