Copyright Policy Privacy Policy Contact Us Instagram Facebook
Top Rated Posts ....
We have no interest in your letter - Establishment's reply to Imran Khan We have no interest in your letter - Establishment's reply to Imran Khan What did Trump say when Netanyahu gifted golden pager to US president? What did Trump say when Netanyahu gifted golden pager to US president? Los Angeles: Police clash with protesters over Trump's mass deportations Los Angeles: Police clash with protesters over Trump's mass deportations What did Maryam Nawaz say about Imran Khan's letter to COAS? What did Maryam Nawaz say about Imran Khan's letter to COAS? Najam Sethi first time responds to Imran Khan's letter to Army Chief Najam Sethi first time responds to Imran Khan's letter to Army Chief What made Trump and Richard abandoned Imran Khan? Rauf Klasra's analysis What made Trump and Richard abandoned Imran Khan? Rauf Klasra's analysis

Gharida Farooqi's tweet on Chief Justice Umar Ata Bandial's supportive behaviour for Imran Khan


غریدہ فاروقی نے اپنی ٹویٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو عمران خان کا وکیل قرار دے دیا۔

بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی ۔۔۔

چیف جسٹس ؛ چئیرمین پی ٹی آئی کے اپنی ہی عدالت میں وکیل بھی۔۔۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس پر تین رکنی بینچ جس میں چیف جسٹس کے ہمراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے ؛ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

درحقیقت جس اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کی گئی وہ اپیل سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف تھی اور یہ اپیل اس فیصلے کے متعلق تھی جو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تب دیا تھا جب ابھی چئیرمین پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں سزا نہیں ہوئی تھی۔ یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پرانے فیصلے کا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ٹرائل کورٹ میں کیس بھیجنے کے بجائے خود فیصلہ کرنا چاہئیے تھا۔

اپیل تکنیکی نکتوں کے متعلق تھی جس میں سے ایک نکتہ یہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بار بار توشہ خانہ کیس کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا جو کہ غلط تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو فیصلہ خود کرنا چاہئے تھے۔ایک نکتہ یہ تھا کہ پارلیمانی رہنماؤں کی جانب سے مالی گوشوارے جمع کرانے کے بعد 120 دن میں ہی کارروائی ہوسکتی ہے ورنہ نہیں اور ایک اعتراض یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کو خود ہی شکایت دائر کرنی چاہئیے تھی یا نہیں؟

کورٹ رپورٹرز کیطرف سے بھی بتایا گیا کہ عدالت میں اچانک سوال اٹھنا شروع ہو گئے جس میں چیف جسٹس اور جسٹس مظاہر نقوی سرِ فہرست تھے۔

حالانکہ اپیل توشہ خانہ میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا کے متعلق نہیں تھی مگر پھر بھی خود سے ہی چیف جسٹس اور ساتھی جج نے چئیرمین پی ٹی آئی کی ٹرائل کورٹ کی سماعت کو متنازعہ بنانا شروع کردیا۔

اگرچہ بے نتیجہ اپیل قانونی نکات کے بارے میں تھی لیکن چیف جسٹس نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر توجہ مرکوز کی اور اس پر بحث کرتے رہے۔

بظاہر چیف جسٹس کو خدشہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرائل کے خلاف ان کی بقیہ مدت کے اندر اپیل زیر التوا رہ سکتی ہے لہذا انہوں نے چئیرمین پی ٹی آئی کو فوری ریلیف دینے کے لیے اس بے اثر اپیل کے ذریعے معاملہ اٹھایا۔

یہ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے نہیں تھامگر پھر بھی وہ فیصلے کے بارے میں ریمارکس دیتے رہے اور اس میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ پر دباؤ ڈالا۔ بعض مواقعوں پر تو چیف جسٹس اتنے پرجوش تھے کہ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کل 2 بجے کیس سنے گا اور میں کل رات 9 بجے تک بیٹھ کر فیصلہ کروں گا۔

ان کے طرز عمل سے عدالت میں موجود وکلا اور میڈیا کے لوگوں کو ایسا لگ رہا ہے کہ اگر چیف جسٹس کے اختیار میں ہو تو وہ فوری طور پر اٹک جیل چلے جاتے اور چئیرمین پی ٹی آئی کے لیے خود تالے کھول دیں۔۔۔






Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...