Top Rated Posts ....

PTI leader Murad Saeed's hard hitting tweet against Establishment

Posted By: Muzaffar, October 07, 2023 | 09:03:03



تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید نے اسٹیبلشمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئےلکھا

تمہیں کیا لگتا ہے کہ پاکستانی قوم جانتی نہیں ہے کہ آج قاسم سوری، علی امین گنڈاپور، علی اعوان، حماد اظہر، مراد سعید مطلوب کیوں ہیں؟
فرخ حبیب، حسان نیازی لاپتہ کیوں ہیں؟
تمہیں کیا لگتا ہے کہ انہیں علم نہیں کہ یاسمین راشد، صنم جاوید، عالیہ حمزہ، طیبہ راجہ جیسی درجنوں خواتین جیلوں میں کیوں ہیں؟
عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، محمود الرشید کونسی گستاخی کی قیمت چکا رہے ہیں؟
اسد قیصر، تیمور جھگڑا، عاطف خان، جنید اکبر جیسے زیر عتاب کیوں ہیں؟
بات اگر ایک عمارت کی تکریم کی ہوتی تو پریس کانفرنسوں والے معاف نہ ہوتے۔ بات اگر کسی ادارے کی تعظیم کی ہوتی تو اس کو سرِ عام گالیاں دینے والے آج منظورِ نظر نا ہوتے. بات اگر “ملک کی سالمیت” کی ہوتی تو ڈان لیک والو، ممبئ حملوں کا الزام اپنی ایجنسیوں پر لگانے والو کے لیے لیول پلئنگ فیلڈ نا سجائ جارہی ہوتی۔
بات جرم کی ہوتی تو عدالتوں میں فیصلے ہوتے۔ ثبوت آتے، دلائل دیے جاتے۔ نو مئی کا تو محظ بہانہ ہے، اصل بات کسی کی انویسٹمنٹ کی ہے۔ بات کسی کی خوشنودی کی ہے۔ بات کسی کی انا کی ہے۔
بات تو ان دکانوں کی ہے جو بند ہوجاتی ہیں اگر ‘آوٹ آف سیلیبس’ قاسم سوری کرسی پہ بیٹھ جاتا ہے۔ اگر علی امین تمہارا جبر سہتے ہوئے قہقہے لگاتا ہے۔ اگر علی اعوان ۱۸ مارچ کو تمہاری گولیوں کے سامنے پلک بھی نہیں جھپکتا۔ اگر حماد اظہر اپنے کاروبار کو تالے لگنے پہ تمہارے قدموں میں نہیں گرتا۔ اگر فرخ حبیب بے خوف ہوکر کالے ڈالوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اگر یاسمین راشد تمہاری ٹیسٹ ٹیوب سیاستدانوں کی اگلی کھیپ کے لیے راستہ نہیں چھوڑتی۔ اگر عالیہ حمزہ، طیبہ راجہ، صنم جاوید تمہیں صنفِ آہن کی اصل تعبیر بن کر دکھا دیتی ہیں۔ اگر عمر چیمہ، محمود الرشید، اعجاز چوہدری بڑی محنت سے بنائے اس متعصبانہ تاثر کو زائل کردیتے ہیں کہ پنجاب کبھی حاکمِ وقت کے خلاف نہیں کھڑا ہوتا۔
اگر اسد قیصر، تیمور جھگڑا، عاطف خان اپنی تمام تر نرم خوئ کے باوجود اصول پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ اگر جنید اکبر تمہاری چالوں کو تمہی پر الٹ دیتا ہے۔ بات اس جسارت کی ہے جو ان ہزاروں کارکنان نے کی جنہیں تم نے کبھی اپنے اصل مجرموں سے سوال پوچھنے کا حق نہیں دینا تھا۔
بات تو ان گناہوں کی ہے جن پر پردہ ڈالنا مطلوب ہے۔ بات اس غداری کی ہے جو ملک کے منتخب سربراہ سے کی گئی۔ بات اس قتل کی ہے جہاں قاتلوں کو یقین تھا کہ ان کے جُبہ پر لگی خون کی چھینٹوں کی جانب کوئ اشارہ نا ہوگا۔ بات اُس عالمی سیاست کی ہے جہاں ہمارے جیسے ملکوں کی عوام کو ایندھن بنا کر افراد کی طاقت کو دوام بخشا جاتا ہے۔ وہ سیاست جس میں قابلِ قبول وہی عناصر ہیں جو بند کمروں میں تسلی دیتے ہیں کہ تم قتل کیے جاؤ ہم زبانی کلامی مذمت سے آگے نا بڑھینگے۔ وہ سیاست جو اپنے کاروباری مراسم کو ان پر ترجیح دیتی ہے کہ جو ۷۶ سال سے اپنے مُردے بھی پاکستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر دفناتے ہیں۔ وہ سیاست جو اپنی سرزمین کی تقسیم کے نعرے پر قائم ہے۔ وہ سیاست جو دین کی دستار سے اپنے تر دامن ڈھانپتی ہے۔
اسی سیاست سے ہی تو تمہاری طاقتوں کو دوام ہے۔ اسی میں تو ڈیلیں ہوتی ہیں۔ باریاں لگتی ہیں۔ مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ نوراکشتی ہوتی ہے۔ اسی کی بدولت تو تم سی قوتوں کو قبولیت ملتی ہے۔
اُس سیاست کی پروردہ کسی طاقت کو کیونکر ریاستِ مدینہ کا کوئ نام لیوا گوارا ہوگا۔ کسی کا ایبسلوٹلی ناٹ کہنا قبول ہوگا۔
کیسے وہ لوگ قبول ہونگے جو اپنے حق کا سوال کرنا جانتے ہیں۔ جو مقابلہ کرتے ہیں، جو ڈٹ جاتے ہیں۔ جو ملک کو اپنی میراث اور عوام کو اپنی رعایا نہیں سمجھتے۔
تمہیں کیا لگتا ہے قوم نہیں جانتی کہ تمہیں مطلوب قاسم سوری، علی اعوان، علی امین، حماد اظہر، مراد سعید نہیں ہیں تمہیں مطلوب وہ شعور ہے جس نے انہیں تمہاری طاقت کے آگے حرِف سوال بلند کرنے کی جرات عطا کی۔ تمہیں مطلوب ان کی فکری آزادی ہے۔ تمہیں مطلوب وہ ادراک ہے جس سے تم نے انہیں بے بہرا رکھنا تھا۔۔ یہ ادراک کہ وہ ریاست کا استعارہ ہیں، کوئ ایک فرد، چند عہدیدار نہیں!






Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...