Chief Justice Qazi Faez Isa's important remarks in Faizabad Dharna case
Posted By: Azam, November 01, 2023 | 06:55:29Chief Justice Qazi Faez Isa's important remarks in Faizabad Dharna case
جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ فیض آباد دھرنا کیس میں 6 فروری 2019 کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ دیکھ لیں، اس پر کمرہ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھ دیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابصار عالم یہاں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں بتایا گیا وہ راستے میں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں، کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟ اتارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چُکی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔
اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا، دریں اثنا ابصار عالم کمرہ عدالت پہنچ گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی، اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ (غیرموجود) ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے سب لوگ نظرثانی واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی ٹی او آرز آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے؟
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا مُلک مفلوج کر دیتے ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا، آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دئے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعہ کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کرانا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کمیٹی کس نے قائم کی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کمیٹی وفاقی حکومت نے قائم کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ کی منظوری لی گئی؟ کیا یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کی گئی؟
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہیں ہوا تو کمیٹی تشکیل کا یہ نوٹیفکیشن کاغذ کا ٹکڑا ہے، یہ کمیٹی پھر غیر قانونی ہے، آپ نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات کیوں نہیں کروائی، فرض کیا ابصار عالم کو کمیٹی بلاتی ہے اور وہ پیش نہیں ہوتے تو آپ کیا کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن کے پاس تو اختیارات ہوتے ہیں، ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں، آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا، آپ ٹھیک طریقے سے کام کریں یا کہہ دیں کہ ہم نہیں کرتے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم کام کریں گے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کسی پر اثرات ہوں گے تو باقی بھی سوچیں گے کہ کچھ غلط کیا تو نتائج بھگتنا ہوں گے، انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آنی چاہیے کہ پہلے سب نے فیصلے کے خلاف نظرثانی کیوں دائر کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی بالادستی کسی بھی قیمت پر یقینی بنانا ہوگی، آپ کے پاس موقع ہے کسی ایسے شخص سے انکوائری کروائیں جو آئین کو مقدم رکھتا ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کی مرضی ہے کہ انکوائری کیلئے جس کو مرضی تعینات کریں، ابصار عالم کے بیان کے مطابق تو الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے آزاد نہیں تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے حقائق پر کسی کو بھی بیان حلفی کے ساتھ بیان جمع کرانے کی اجازت دی تھی۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلا سے تحریری جواب طلب کر لیے تھے۔
گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر 2017 میں دیے گئے دھرنے سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ایک ’خصوصی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘ تشکیل دے دی گئی ہے۔
Source