Miftah Ismail's tweet explaining IPP's capacity charges issue
Posted By: Abbas, July 30, 2024 | 18:28:52Miftah Ismail's tweet explaining IPP's capacity charges issue
مفتاح اسماعیل نے آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز اشو کی وضاحت میں تفصیلی ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا
ان دنوں آئی پی پیز کے کیپیسیٹی چارجز کے بارے میں ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا گیاہے۔
اگر آپ 3 سال کے لیے کار لیز یا کرایہ پر لیتے ہیں اور ایک سال کے بعد آپ کو ادائیگی کرنا بہت مشکل لگتا ہے، تو آپ کرایہ ادا کرنا بند کر کے گاڑی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم یکطرفہ طور پر آئی پی پیز کو ادائیگی کرنا بند کر دیں تو کیا آئی پی پیز ہمیں بجلی کی فراہمی بند نہیں کر دیں گے؟
پچھلے سال آئی پی پیز کو کیپیسٹی چارجز کی کل ادائیگیاں 1,893 بلین روپے تھیں۔ اس میں سے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، جو مکمل طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہے، کو 3300 میگاواٹ جوہری توانائی کی صلاحیت کے لیے 388 ارب روپے ادا کیے گئے۔ لیکن PAEC نے یہ رقم اپنے پاس نہیں رکھی۔ اس نے اسے پاکستان میں جوہری پاور پلانٹس لگانے کے لیے غیر ملکی بینکوں اور کمپنیوں سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی PAEC چشمہ 5 ایٹمی بجلی گھر تعمیر کروا رہا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ چینی سپلائرز ہمیں ٹیکنالوجی اور آلات کی فراہمی جاری رکھیں گے اگر ہم انہیں ان پلانٹس کی ادائیگی بند کر دیں جو انہوں نے پہلے لگائے ہیں؟
ایل این جی پر چلنے والے 4800 میگاواٹ کے پلانٹس کے لیے 150 ارب روپے ادا کیے گئے۔ ان میں سے دو پاور پلانٹس حکومت پاکستان اور دو حکومت پنجاب کے پاس ہیں۔ ایک بار پھر ان کو ادا کی گئی رقم ان پاور پلانٹس کے قیام کے لیے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔
10,000 میگاواٹ سے زیادہ کی ہائیڈل پاور کے لیے زیادہ تر واپڈا اور کچھ نجی اداروں کو 229 بلین روپے ادا کیے گئے، جس میں پاکستان کا سب سے مہنگی۔ بجلی بنانے والا پاور پروجیکٹ نیلم جہلم بھی شامل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ادائیگیاں واپڈا کو ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے گئیں جو اس نے مقامی اور غیر ملکی بینکوں سے لیے ہیں۔ یاد رہے کہ آج بھی واپڈا چین کی مدد اور پیسے سے پاکستان میں دوسرے ڈیم بنا رہا ہے۔
اس کے علاوہ درآمدی کوئلے پر چلنے والے 4500 میگاواٹ کے پاور پلانٹس کے لیے 421 ارب روپے کی رقم ادا کی گئی۔ ان میں سے دو مکمل طور پر چینی اور قطری سرمایہ کاروں کی ملکیت ہیں، ایک 75% چینی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہے اور صرف سب سے چھوٹے پلانٹ کی ملکیت مقامی سرمایہ کاروں کی ہے۔ تھر کے مقامی کوئلے پر چلنے والے 2000 میگاواٹ کے پلانٹس کے لیے 307 ارب روپے ادا کیے گئے۔یہ تمام پلانٹس غیر ملکی بینکوں کے قرضوں سے بنے ہیں
یہ 1893 بلین روپے میں سے 1495 بلین روپے بنتا ہے (یا 79%) جو ہم نے گزشتہ سال سرکاری یا غیر ملکی ملکیت والے اداروں کو ادا کیا۔
اس لیے مقامی نجی ملکیت والے آئی پی پیز کوکیپیسیٹی کی ادائیگی نہ کر کے پیسے بچانے کے لیے بہت کم گنجائش رہ جاتی ہے
پی ٹی آئی حکومت نے اداروں کی مدد سے پہلے ہی 2021 میں مقامی، پرانے آئی پی پیز کے ساتھ کیپیسیٹی کے چارجز کو کم کرنے کے لیے کامیابی سے معاہدہ کر لیا تھا۔
موجودہ حکومت کو آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کو دوبارہ کھولنے اور مراعات حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ادائیگیوں کو ری شیڈول کرنے اور تاخیر سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ بھی بہت غور سے دیکھیں کہ پچھلی حکومتوں نے آئی پی پی کے معاہدوں میں جو توسیع کی ہے اس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔
آخر میں، کوئلے کے پلانٹس کے لیے حکومت کو غیر ملکی حکام اور بینکوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تاکہ ادائیگیوں کو دوبارہ ری شیڈول اور تاخیر سے کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور ساتھ ہی ان پلانٹس کو درآمدی کوئلے سے مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔
لیکن ان قرضوں کاادا نہ کرنے کا مطلب ڈیفالٹ ہوگا اور یہ کبھی بھی رضامندانہ آپشن نہیں ہونا چاہیے۔
ان دنوں آئی پی پیز کے کیپیسیٹی چارجز کے بارے میں ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا گیاہے۔
— Miftah Ismail (@MiftahIsmail) July 30, 2024
اگر آپ 3 سال کے لیے کار لیز یا کرایہ پر لیتے ہیں اور ایک سال کے بعد آپ کو ادائیگی کرنا بہت مشکل لگتا ہے، تو آپ کرایہ ادا کرنا بند کر کے گاڑی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم یکطرفہ طور پر آئی…