Top Rated Posts ....

Iraq plans to lower the marriage age for girls to nine

Posted By: Afzal, August 14, 2024 | 16:51:28


Iraq plans to lower the marriage age for girls to nine



عراق کا لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر 18 سال سے کم کرکے 9 سال کرنے کا فیصلہ۔ عراق کی جسٹس منسٹری نے پارلیمنٹ میں بل پیش کردیا۔

عراق کی پارلیمنٹ میں ایک مجوزہ بل پر بڑے پیمانے پر غم وغصے اور تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس میں لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر کو کم کرکے نوسال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

عراق کی وزارت انصاف کی جانب سے متعارف کرائے گئے متنازعہ قانون کا مقصد ملک کے ذاتی حیثیت کے قانون میں ترمیم کرنا ہے، جس میں فی الحال شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہے۔

یہ بل شہریوں کو خاندانی معاملات پر فیصلہ کرنے کے لیے مذہبی حکام یا سول عدلیہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی اجازت دے گا۔ ناقدین کو خدشہ ہے کہ یہ وراثت، طلاق اور بچوں کی تحویل کے معاملات میں حقوق کو م‍حدود کردینے کا باعث بنے گا۔

نئے قانون میں کیا ہے؟

اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو یہ 9 سال کی لڑکیوں اور 15 سال سے کم عمر کے لڑکوں کو شادی کرنے کی اجازت دے گا، جس سے بچوں کی شادی اور استحصال میں اضافے کا خدشہ پیدا ہو گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ رجعت پسندانہ اقدام خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے فروغ میں کئی دہائیوں کی پیش رفت کو نقصان پہنچائے گا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں، خواتین کے گروپوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے۔ انہوں نے نوجوان لڑکیوں کی تعلیم، صحت اور بہبود کے لیے سنگین نتائج کا انتباہ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون منظورہو جانے سے بچپن کی شادیوں کی شرح میں اضافہ، جلد حمل، اور گھریلو تشدد کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق عراق میں 28 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی محقق سارہ سنبر نے کہا، "اس قانون کو پاس کرنے سے یہ ظاہر ہو گا کہ یہ ملک پیچھے کی طرف بڑھ رہا ہے، آگے کی طرف نہیں۔"

بل کی مخالفت

عراق ویمنز نیٹ ورک کی عمل کباشی نے بھی سخت مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم پہلے سے ہی ایک قدامت پسند معاشرے میں "خاندانی مسائل پر مردوں کے غلبے کے لیے بہت بڑا راستہ فراہم کرتی ہے"۔

جولائی کے آخر میں، پارلیمنٹ نے مجوزہ تبدیلیوں کو واپس لے لیا تھا جب بہت سے قانون سازوں نے اعتراض کیا تھا۔ لیکن ایوان میں اکثریتی شیعہ اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے بعد 4 اگست کو اسے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔

مجوزہ بل 1959 کے قانون میں تبدیلی ہے ۔ عراقی بادشاہت کے خاتمے کے بعد نافذ ہونے والے اس قانون نے عائلی قوانین کا اختیار مذہبی شخصیات سے ریاستی عدلیہ کو منتقل کر دیا تھا۔ نئے بل میں بنیادی طور پر شیعہ اور سنی مسالک کے مذہبی قوانین کو لاگو کرنے کا اختیار دوبارہ متعارف کرایا جائے گا، لیکن عراق کی متنوع آبادی کے اندر دیگر مذہبی یا فرقہ وارانہ برادریوں کا ذکر اس میں نہیں کیا گیا ہے۔

بل کے حامیوں کی دلیل

بل کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد اسلامی قانون کو معیاری بنانا اور نوجوان لڑکیوں کو "غیر اخلاقی تعلقات" سے بچانا ہے۔ تاہم، مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ استدلال غلط ہے اور بچپن کی شادی کے تلخ حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی سارہ سنبر کا کہنا تھا کہ مذہبی حکام کو شادی کا اختیار دینے سے، یہ ترمیم "عراقی قانون کے تحت مساوات کے اصول کو کمزور کر دے گی۔"

انہوں نے کہا، نو سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کو بھی قانونی حیثیت دے سکتا ہے، جو ان گنت لڑکیوں کے مستقبل اور صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔""

انہوں نے کہا، "بچیاں کھیل کے میدان اور اسکول میں اچھی لگتی ہیں، شادی کے لباس میں نہیں۔"


Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...