Top Rated Posts ....

Two Strange Brothers in Pakistan Eat the Dead Bodies Getting Out of Graves - BBC Report

Posted By: Saira Kamal, August 03, 2013 | 12:50:16




پاکستان کی پولیس نے اپریل 2011 میں دو بھائیوں کو قبر سے ایک خاتون کی لاش نکال کر اس کےگوشت کو پکا کر کھانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اس جرم میں عدالت نے دونوں بھائیوں کو سزا بھی سنائی تھی لیکن صرف دو برس کی کیونکہ پاکستان میں ’آدم خوری‘ جیسے جرم سے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔
دونوں بھائی محمد فرمان علی اور محمد عارف علی نے کسی کا قتل نہیں کیا تھا اور انہیں صرف اس بات کی سزا ملی کہ انہوں نے ایک قبر کی توہین کی تھی۔
جب ہم نے ان ’آدم خور‘ بھائیوں سے ملنا چاہا تو انہیں تلاش کرنا آسان نہیں تھا۔ جیل سے رہائي کے بعد یہ دونوں بھائی کسی طرح کی بھی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ جب ہم ان سے ملنے پہنچے تو ان کے رشتے دار ولی دین ہمیں دیکھ کر خوش نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا: ’وہ دونوں آدم خور نہیں ہیں۔ وہ تو اپنے پڑوسیوں کے حسد کا شکار ہوگئے تھے۔‘
اس واقعے سے متعلق بعض پختہ ثبوت ہونے کی وجہ سے اسلام آباد سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دریا خان قصبے میں اس وقت کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
جون میں جب یہ دونوں بھائی جیل سے چھوٹ کر آئے تو دریا خان قصبے کے لوگوں کا غصہ ایک بار پھر پھوٹ پڑا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان دونوں بھائیوں کی جان بچانے کے لیے پولیس کو انہیں تحفظ دینا پڑا۔ اس کے بعد سے ان دونوں بھائیوں کا پتہ ٹھکانا خفیہ رکھا گیا۔



جب ہم ان سے ملنے پہنچے تو چھوٹے بھائی عارف علی گھر کے صحن میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ پسینے سے تربتر ہوگئے۔
انہوں نے جو کیا تھا اس کے بارے میں پوچھےگئے سوالات کے جواب دینے سے زیادہ انہیں اپنی جان کی فکر تھی۔ لوگوں کے ہاتھوں مارے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عارف نے کہا ’آپ تو جانتے ہیں کہ یہاں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ لوگوں کو پتہ چل جائےگا تو میں مصیبت میں پڑ سکتا ہوں۔‘
عارف کے پاس ہمارے کسی سوال کا واضح جواب نہیں تھا۔ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ دماغی طور پر غیر متوازن ہیں یا ہمیں دیکھ کرگھبرائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ عارف نے یہ ضرور کہا ’انشاءاللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔‘
عارف سے ملنے کے بعد ہم نے وہ کمرہ بھی دیکھا جہاں دو سال پہلے یہ سنگین واقعہ ہوا تھا۔ جس کمرے سے پولیس نے قبر سے نکالی گئی خاتون کی لاش برآمد کی تھی۔
24 سالہ سائرہ پروین کی موت گلے کے کینسر سے ہوئی تھی۔ جس دن ان کو دفن کیا گیا اس کی اگلی صبح ان کے رشتہ داروں نے دیکھا کہ ان کی قبر کھدی ہوئی تھی۔
سائرہ کے بھائی اعجاز حسین بتاتے ہیں ’جب ہم نے قبر کو کھول کر دیکھا تو اس کی لاش نہیں تھی۔ ہم لوگ اس واقعہ سے دہل گئے۔‘
اس واقعے کی تحقیقات کر رہی پولیس جب ان بھائیوں کے پاس پہنچا تو وہ وہاں کے حالات دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
ان بھائیوں کے گھر پر چھاپہ مارنے والی پولیس پارٹی کے سربراہ انسپکٹر فخر بھٹی کہتے ہیں ’مقامی بزرگوں کی موجودگی میں جب ہم نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو عارف سو رہا تھا۔ اس کے والد اور بہن وہاں موجود تھے۔ فرمان گھر پر نہیں تھا۔ ہم نے گھر کی تلاشی لی۔ فرمان کے کمرے میں تالا لگا تھا۔ چابی مانگ کر جب ہم نے ان کے کمرے کو کھولا تو اس میں سے گوشت کے سڑنے کی تیز بو آ رہی تھی۔ کمرے کے درمیان ایک پتيلا رکھا تھا۔ پتيلے میں گوشت پکایا گیا تھا۔ پتيلے میں تھوڑا گوشت اب بھی تھا۔ پتيلے کے پاس ہی لکڑی، چھوٹی کلہاڑی اور بڑا چاقو پڑا ہوا تھا۔ لکڑی اور کلہاڑی پر چربی چپکی ہوئی تھی۔‘
انسپکٹر فخر کی نظر جب کمرے میں چيونٹيوں کے ریلے پر گئی تو ان کا ماتھا ٹھنكا۔ یہ چيونٹياں کمرے میں رکھے پلنگ کے اندر جا رہی تھیں۔ پولیس نے جب پلنگ کے نیچے کا سامان نکالا تو ایک بڑے تھیلے میں اس خواتین کی لاش ملی۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی بھی کوشش کی کہ آخر ان بھائیوں نے ایسا کیوں کیا؟
انسپکٹر فخر کے مطابق پولیس کو تفتیش میں معلوم چلا کہ دونوں بھائی ایک جادو والے کے چکر میں پڑ گئے تھے۔ اس جادوگر کو مقامی لوگوں نے کچھ سال پہلے ایک قبر سے لاش چراتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا۔ وہ جادو کرنے والا پولیس کو گرفت میں نہیں آ سکا۔
انسپکٹر فخربتاتے ہیں کہ پوچھ گچھ کے دوران فرمان علی نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں پر جادو کرنے کے لیے قرآن کی کچھ آیات کو الٹا پڑھا تھا۔
فرمان نے پولیس سے کہا ’اس جادو کے کامیابی کے لیے ہم دونوں بھائیوں کو پاکیزگی کے ساتھ رہنا تھا اور آدم ذات کا گوشت کھانا تھا۔‘
فرمان کے ساتھ ایک ہی سکول میں دس برس تک تعلیم حاصل کر چکے مقامی رہائشی تنویر خاور کہتے ہیں ’وہ پڑھنے میں تیز تھا۔ دسویں میں اس نے سائنس لے کر تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن دسویں کے بعد اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور زیادہ تر اکیلے رہنے لگا تھا۔ اس کے بعد تو وہ کبھی کبھار ہی دکھائی دیتا تھا۔‘
ان بھائیوں کے ساتھ ان کی ایک ذہنی طور پر بیمار بہن بھی رہتی تھی۔ ان کی گرفتاری کے کچھ دن بعد ہی اس کی لاش ان کے گھر کے قریب کی نہر میں ڈوبی ہوئی پائی گئی۔
اب تک ان دونوں بھائیوں کو کسی ماہر نفسیات کو نہیں دکھایا گیا ہے۔
ہم نے اس بارے میں ان بھائیوں کے وکیل راؤ تصدق حسین سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا ’میرا کام تھا کہ انہیں کم سے کم سزا ہو۔ وہ میں نے کیا۔ اگرچہ میرا خیال ہے کہ وہ دونوں بھائی پاگل نہیں بلکہ بیوقوف ہیں۔‘


Source: BBC News




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...