پاکستان کے عوام جہاں ایک عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہیں وہیں ملک میں اغوا جیسے جرائم کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں گذشتہ چند برسوں سے اغوا کی وارداتوں نے ایک ’صنعت‘ کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ ایک ایسا منافع بخش ’کاروبار‘ بن گیا ہے جو کسی کے لیے راتوں رات امیر بننے تو کسی کے لیے بہت سے دوسرے غیرقانونی دھندوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے نصف میں ملک بھر میں نو ہزار سے زیادہ افراد اغوا کیے گئے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ تعداد ان اعداد و شمار سے خاصی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ کئی افراد اس معاملے کو پولیس تک لے جانے کی بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کلِک کراچی میں ’فلیش کڈنیپنگ‘
کلِک مغویوں کی ’چُپ‘ کی وجہ کیا؟
کلِک 2011 میں اغوا کی اہم وارداتیں
ملک کے چاروں صوبوں کی پولیس بھی اس ضمن میں مختلف حیلوں بہانوں سے مسئلے کی شدت کو کم ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے اور سرکاری ویب سائٹوں پر اس جرم سے متعلق اعداد و شمار کو مختلف نوعیتوں میں تقسیم کر کے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پنجاب
پاکستان میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اغوا کی وارداتوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔
پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے جون کے اواخر تک مختلف نوعیت کے اغوا کی 7139 وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔
پنجاب میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی اہم شخصیات کو بھی اغوا کیا گیا ہے جن میں حکام کے مطابق اغوا کاروں کے بڑے گروہ ملوث ہیں۔
اس معاملے کی تازہ ترین مثال سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کا مئی 2013 میں ملتان سے انتخابی مہم کے دوران اغوا ہے جنہیں واقعے کے تین ماہ بعد تک بھی بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے۔
ملتان کے سٹی پولیس آفیسر غلام محمود ڈوگر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس اغوا کی تحقیقات میں پیشرفت ہوئی ہے لیکن اسی قسم کے دعوے پولیس حکام کی جانب سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کے لاہور سے اغوا کے بعد بھی سامنے آئے تھے جن کے اغوا کا معمہ دو برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
ایسی ہی صورتحال امریکی امدادی کارکن ڈاکٹر وارن وائنسٹائن کے کیس کی ہے جنہیں لاہور ہی سے اغوا کیا گیا تھا۔ اغواکار ان کی ویڈیوز بھی جاری کرچکے ہیں لیکن ڈاکٹر وارن کو اب تک رہا نہیں کروایا جا سکا۔
ان بڑی وارداتوں کے علاوہ صوبے میں چھوٹے پیمانے پر اغوا کی واردتیں بھی عام ہیں جہاں تاوان کے لیے کیے گئے اغوا میں پیسے کا حصول ہی بنیادی ہدف ہوتا ہے
لاہور میں پولیس کی جانب سے آپریشن کے بعد گرفتار کیے جانے والے ایک مبینہ اغوا کار کا کہنا ہے کہ ’ہم نے یہ سب کچھ پیسے کے لالچ میں کیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنا سنگین جرم ہے۔ ہماری عقل پر پردہ پڑ گیا تھا یہ پہلا اور آخری جرم ہے جو مجھ سے ہوا۔ میرے پانچ بچے ہیں جن کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں۔ بس ایک غلطی سے سب کچھ برباد ہوگیا‘۔
یہ تاثرات تو اس اغواکار کے ہیں جو پولیس کی حراست میں ہے جبکہ اغواکاروں کے بہت سے گروہ ایسے ہیں جو قانون نافذ کرنے والوں کی پہنچ سے دور ہیں۔ ان گروہوں کے خلاف کارروائی اور ان کے قبضے سے مغویوں کو بازیاب کروانا بڑا چیلنج ہے۔
لاہور کے ڈی آئی جی انوسٹیگیشن ذوالفقار حمید کہتے ہیں: ’کبھی کبھی اغواکار مغویوں کو ایسے علاقوں میں لے جاتے ہیں جہاں حکومتی رٹ پوری طرح قائم نہیں جیسے قبائلی علاقے یا پھر کچھ کیسز میں اغوا کرنے والے دوسرے صوبوں میں چلے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کو بازیاب کرانا نسبتاً مشکل ہوتا ہے اور ایسے مقدمات کو حل کرنے میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے‘۔