Hamari Qadamat Parastiyan - by Allama Niaz Fatehpuri - Quote From Man-o-Yazdan
Posted By: Saad Aziz, August 12, 2018 | 00:55:36Hamari Qadamat Parastiyan - by Allama Niaz Fatehpuri - Quote From Man-o-Yazdan
ہماری قدامت پرستیاں
تحریر: علامہ نیاز فتح پوری
اقتباس: من ویزداں
’’ کسی زمانہ میں ایک بزرگ تھے جو دریا کی سطح پر مصلا بچھا لیتے تھے اور اس پر نماز پڑھتے ہوئے اس کو عبور کرجاتے تھے۔‘‘
کوئی ولی اللہ کسی طرف سے گزر رہے تھے کہ ایک کنویں پر انہوں نے آدمیوں کا ہجوم دیکھا، دریافت سے معلوم ہوا کہ ایک بھینس اندر گر گئی ہے اور لوگ اس کے نکالنے کی فکر میں ہیں۔ انہوں نے کنویں میں ہاتھ ڈال کر جو باہر نکالا تو لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ بھینس باہر کھڑی ہوئی ہے۔‘‘
’’ کسی زمانہ میں ایک صاحب کرامت درویش کثرت ریاضت سے اس قدر ’’لطیف ‘‘ ہوگئے تھے کہ پٹکا ان کے جسم سے آرپار ہوجاتا تھا اور ان کا بدن حائل نہ ہوتا تھا۔‘‘
تذکرۃ الاولیاء قسم کی کتابیں اٹھا کر دیکھیے تو ہزاروں واقعات آپ کو اس سے زیادہ حیرت انگیز نظر آئیں گے لیکن آپ نے اس پر بھی غور کیا ہے کیا واقعی کسی وقت ہمارے یہاں کے اکابر مذہب و تصوف سے اس قسم کی محیر العقول باتیں ظاہر ہوئی تھیں اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کا سبب کیا تھا اور کس فائدہ و نتیجہ کیلئے تھا اور اب اس ’’کشف و کرامات‘‘ کے لوگ کیوں نظر نہیں آتے؟
آپ کسی شخص سے جو ان باتوں کی صحت کاقائل ہو یہ سوال کریں گے تو وہ نہایت ہی غم آلود ، حسرت ناک چہرہ بنا کر کہے گا کہ یہ اگلے لوگوں کی باتیں جو انہی کے ساتھ گئیں، نہ اب وہ ریاضتیں ہیں، نہ عبادتیں، نہ وہ روحانیت ہے، نہ صداقت، نہ وہ ایمان ہے،نہ وہ یقین۔ پھر آپ اس سے پوچھیے کہ اب ایسا کیوں نہیں ہے ، کیا مسلمان دنیا میں نہیں رہے، کیا عبادت کا اصول بدل گیا، کیا اصولِ اخلاق و روحانیت میں کوئی تغیر پیدا ہوگیا، تووہ اس کے جواب میں سوا اس کے کہ اپنی کم بختی کا رونا روئے، خدا کی مرضی پر محمول کرے یا کل جگ کی خرابی بتا کر خاموش ہورہے اور کچھ نہ کہے گا۔ اکثر و بیشتر میرے پاس ایسے حضرات کرام آتے رہتے ہیں جو میرے ’’کفر و الحاد‘‘ میں میرے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ مجھے راہ راست پر لانے کی سعی فرماتے ہیں، چنانچہ چند دن ہوئے ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے ، اس عزم کے ساتھ کہ وہ مجھ بے دین کو بغیر مسلمان بنائے ہوئے نہ اٹھیں گے۔ میں ان کی مقطع صورت، ان کی شرعی وضع اور ان کے ہنگامہ خیز ’’السلام علیکم ‘‘ سے چونک کر پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آج پھر کوئی ’’ خداوند اپنے ناچیز بندہ‘‘ کو سعاد ت جلوہ بخشنے کیلئے آیا ہے۔ اس لئے تعظیماً و احتراماً اٹھ بیٹھا، صدر میں جگہ دی اور مودب ہوکر خاموش بیٹھ گیا۔ پہلے تو وہ بڑی دیر تک نہایت غور سے میری صورت و وضع کو دیکھتے رہے اور پھر ایک نہ چھپ سکنے والی خشونت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ ’’ میں نے سنا ہے کہ تم معجزہ و کرامات کے قائل نہیں۔ ‘‘میں نے عرض کیا کہ ’’ یہ تو آپ نے غلط سنا ہے کیونکہ کل ہی میں کار نوال میں دان ندمن کا کارنامہ دیکھ چکا ہوں جوکہ 100فٹ کی بلندی سے 3فٹ کی جست لگاتا ہوا آگ کے شعلوں کے اندر غائب ہوجاتا ہے۔ علاوہ اس کے یہاں کے پروفیسر معشوق علی کی کرامتیں بار ہا دیکھ چکا ہوں جو ایک رومال سے درجنوں رومال اور ایک روپیہ سے سینکڑو ں روپے آن کی آن میں بناد یتے ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی ان کا چہرہ سرخ ہوگیا اور برہم ہوکر بولے، ’’تو کیا رسولوں کے معجزے اور اولیا ء کی کرامات بھی کوئی شعبدہ بازی تھی؟‘‘۔
میں نے کہا ،’’ مجھے اس کا علم نہیں۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ میرے لئے تو ان لوگوں کے یہ تماشے بھی معجزے ہی کا حکم رکھتے ہیں۔ کیونکہ میں ویسا کرنے سے عاجز ہوں ۔‘‘فرمایا، ’مشق سے ہر شخص ایسا کرسکتا ہے‘‘۔ میں نے کہا،’’ ایک منکر مذہب معجزوں کے متعلق بھی یہی کہہ سکتا ہے‘‘۔ بولے ،’’مگر اس کا یہ کہنا تو غلط ہوگاکیونکہ وہاں مشق و اکتساب کا کوئی سوال نہ تھا اور معجزہ اصطلاح میں کہتے ہی اس کو ہیں جو ایک نبی سے بغیر کسی مشق و اکتساب کے سرزد ہو۔‘‘ میں نے کہا ، ’’بجا ارشاد فرمایا لیکن اگر آج کل کے شعبدے دکھانے والے بھی یہی دعویٰ کر بیٹھیں کہ جو کچھ وہ دکھاتے ہیں اس کا تعلق مشق و اکتساب سے نہیں ہے تو آپ کیا فرمائیں گے؟‘‘کہنے لگے ، ’’ہم اسے جھوٹا کہیں گے اور سینکڑوں مثالیں ایسی بتادیں گے کہ مشق سے لوگ ویسا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘
میں نے کہا ، ’’ یہ درست ہے لیکن نتیجہ کے لحاظ سے شعبدہ ومعجزے میں کوئی فرق مجھے نظر نہیں آتا۔ سوا اس کے کہ ایک شخص کسی وہبی قوت کی وجہ سے اس کے ظہور کا مدعی ہے اور دوسرا مشق و اکتساب سے، اس سے اخلاقِ انسانی کو کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ‘‘ بولے، ’’معجزہ تو صرف اس لئے ہے کہ نبی کو نبی مانیں اور اس کے کہنے پر عمل کریں۔‘‘ میں نے کہا ،’’ تو خلاصہ یہ ہو اکہ نبی وہ ہے جس سے معجزہ سرزد ہوا اور معجزہ وہ ہے جو نبی سے ظاہر ہو۔‘‘ کہنے لگے، ’’ بے شک‘‘۔
ظاہر ہے جس جماعت کے رہنما و قائد اس عقیدہ و خیال کے ہوں گے وہ کیوں نہ اعجوبہ پرست ہوگی اور اس کا یہ عقیدہ کہ ’’اسلاف‘‘ کی مانند صاحبان علم و عزیمت ، حاملان فضل و کرامت اب پیدا نہیں ہوسکتے، اس کو کس درجہ مایوس اور ناکارہ بنادے گا۔ اس میں شک نہیں کہ ’’ عہد ماضی‘‘ میں انسان کے لئے بہت کچھ دلچسپیاں ہوا کرتی ہیں اور گزرتے واقعات بعض دماغوں کے لئے ایک ’’طلسم زار‘‘ کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں ، لیکن اس کا تعلق صرف ہمارے جذبات، محبت و عقیدت سے ہے جو انسان کے عہد وحشت سے وراثتاً منتقل ہوتے چلے آئے ہیں اور اب ہم ان کو ایک حقیقت و واقعہ سمجھنے لگے ہیں۔
ادارہ مذہب کے قیام کی تاریخ کااگر آپ مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کی بنیاد ہمیشہ کسی ایک مخصوص ہستی کے ساتھ جذبہ خوف و احترام یا محبت و عقیدت پر قائم ہوئی اور اس ہستی کے اٹھ جانے کے بعد انسان نے اپنی عقیدت و ارادت کو وسیع و مستحکم بنانے کیلئے بہت سی ایسی باتیں اپنی طرف سے اضافہ کرکے بیان کرنا شروع کردیں جو لوگوں کو مرعوب یا راغب کرنے والی تھیں۔ چنانچہ انبیاء کے معجزے، اولیاء کی کرامات، درویشوں کی خوارق عادات سب اسی قبیل کی چیزیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف ہمارے ہی ارادت مندانہ جذبات یا مصالح تبلیغ کی پیداوار ہیں۔ پھر جس طرح سو سال پیشتر کے کسی بزرگ کے حالات میں اس وقت معتدبہ اضافہ اس کی کرامات کا نظر آتا ہے، اسی طرح آج کسی بزرگ کے متعلق بھی سوسال بعد ایسی روایتیں منسوب کردی جائیں گی اور جس طرح چار قرن پہلے کی پختہ قبر آج کسی نہ کسی بزرگ کا مزار بن گئی ہے، اسی طرح نصف صدی بعد آج کی بنی ہوئی قبر پر بھی پھولوں کی چادر کا چڑھایا جانا بعید نہیں۔ اگر جہل و واہمہ پرستی کا یہی عالم رہا۔
ہمارے اسلاف نے اپنے عہد میں جو کچھ کیا ، اس میں شک نہیں کہ وہ لائق صد ہزار آفرین و ستائش ہے، لیکن یہ کہنا جو کچھ وہ کر گئے ہیں اس میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں اور جو کچھ وہ کہہ گئے ہیں اس کو بلا چون و چرا آنکھ بند کرکے تسلیم کرلینا چاہیے حد درجہ مضر تعلیم ہے اور ایک قوم کی دماغی و ذہنی ترقی کو خاک میں ملادینے والی ہے۔
آئیے اپنے بعض اسلاف کی علمی تحقیق اور ذہنی ترقی کا ایک لطیفہ سن لیجیے۔
علامہ قزوینی اور علامہ دمیری سے غالباً ہر وہ شخص واقف ہوگا جس نے تاریخ کا سرسری بھی مطالعہ کیا ہے۔
علامہ قزوینی وہی ہیں جنہوں نے ’’تاریخ گزیدہ‘‘ مرتب کی، ظفرنامہ لکھا اور’’نزہتہ القلوب‘‘ تصنیف فرمائی۔ یہ حر بن یزید کی اولاد میں سے تھے جن کو میدان کربلا میں سید الشہدا ء کے ہم رکاب جہاد کی سعاد حاصل ہوئی تھی اور مذہباً شیعہ تھے۔ علامہ دمیری آٹھویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ، محدث و مفسر تھے۔ جامع ازہر قاہرہ میں فلسفہ و ادب کے لیکچر ار تھے۔ خاص سرزمین مکہ میں سلسلہ درس و تدریس جاری رکھتے تھے ۔ صاحب کرامات بھی مانے جاتے تھے اور منجملہ خطبات و دیگر کتب کے، ایک مشہور کتاب ’’حیات ا لحیوان ‘‘ کے بھی مصنف تھے۔
الغرض یہ دونوں ایسے صاحب فضل و کمال تھے کہ آج کوئی مولوی و عالم ان کے مرتبہ تک پہنچنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ، لیکن ان کی تحقیق انیق اور ان کی پختگی ذہن کا کیا عالم تھا، حیات الحیوان لے کر اسکول کے کسی طالب علم کو دے دیجیے اور فیصلہ اسی پر چھوڑ دیجیے ۔ مثلاً ان حضرات کی کاوشِ علمی کا ایک ادنیٰ نمونہ یہ ہے کہ عقاب کی تحقیق کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔
’’جب عقاب (چیل) سال خوردہ ہوجاتی ہے اور بینائی کھو بیٹھتی ہے تووہ فضا میں بلند ہوتی ہے اور اس حد تک اوپر اڑ کر چلی جاتی ہے کہ اس کے پر تمازت آفتاب سے جل جاتے ہیں ، اس کے بعد وہ نیچے گرتی ہے اور ایک شور و تلخ پانی کے کنویں میں غوطہ لگا کر از سرِ نو جوان ہوجاتی ہے۔(قزوینی)‘‘
جب چیل ضعیف و کمزور ہوکر اندھی ہوجاتی ہے تو اس کے بچے اس کو چاروں طرف لادے پھرتے ہیں ،یہاں تک کہ ہندوستان کے ایک چشمے تک پہنچتے ہیں اور اس میں غوطہ لگاتے ہیں۔ اس کے اثر سے چیل کی بینائی عود کر آتی ہے اور وہ از سر نو جوان ہوکر اپنی شکاری زندگی شروع کردیتی ہے۔‘‘
’’کرگس چیل کے انڈے سے پیدا ہوتا ہے اور چیل کرگس کے انڈے سے ۔ تمام چیلیں مادہ ہیں اور دوسری چڑیوں سے جفتی کھاتی ہیں۔ یہ صرف تین ا نڈے دیتی ہیں، لیکن تیسرے انڈے کو پھینک دیتی ہیں اور صرف دو سیتی ہیں۔ تیسرے انڈے کو ایک اور طائر جس کا نام سرالعظام (ہڈی توڑ) ہے ، اٹھا لاتا ہے اور اس سے بچہ نکالتا ہے۔‘‘
’’ چیل ہندوستان سے ایک پتھر لے کر آتی ہے اور گھونسلے میں رکھ دیتی ہے تاکہ انڈے سینے میں آسانی ہو، یہ پتھر کھوکھلا ہوتا ہے، جس کے اندر ایک اور پتھر ہوتا ہے اور یہ پتھر عورتوں کے وضع حمل میں بھی آسانی پیدا کرتا ہے۔(دمیری)‘‘
غالباً یہ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ عقاب کے متعلق جو ان محققین نے لکھا ہے یہ صرف نقل ہے قدیم یونانی روایات کی جو عہد قدیم سے ان کے یہاں رائج چلی آرہی تھیں۔ پھر جب آٹھویں صدی ہجری تک ہمارے یہاں کے مورخین و مصنفین کی تحقیق کا یہ عالم تھا کہ وہ روایات قدیمہ سے ایک انچ ہٹ کر خود اپنے ذہن و عقل سے کام لینا گناہ سمجھتے تھے تو ظاہر ہے کہ اس سے قبل اور کیا عالم رہا ہوگا اور ان کے علمی کارناموں کی زمانہ موجودہ میں کیا وقعت ہوسکتی ہے؟
یقیناًان لوگوں پر کوئی الزام نہیں کیونکہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ ان کی بساط عقل کے لحاظ سے بالکل درست تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس زمانہ میں جب تفتیش و تحقیق نے غیر معمولی وسعت اختیار کرلی ہے کیوں کسی کو اس امر کے ماننے پر مجبور کیا جائے کہ اسلاف جو کچھ لگ گئے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے، اور ہم انہیں کا اتباع کرکے ترقی کرسکتے ہیں۔یہی وہ قدامت پرستی ہے جو اس سے قبل خداجانے کتنی قوموں کو تباہ و برباد کرچکی ہے اور اب مسلمانوں کی جماعت ا س کا شکار بنی ہوئی ہے۔
اعجوبہ پرستی کا دور گزر گیا، یہ دور ہ ہے صرف تجربہ و مشاہدہ کا، اس لئے اب نہ معجزہ و کرامات پر محض اس لئے یقین کیا جاسکتا ہے کہ قدیم کتابوں میں ایسا لکھا ہواہے اور نہ صرف خوارق عادات کی بناء پر کسی کی عظمت و بزرگی ثابت کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ جب تک طبیعات کی دنیا تک انسان کی دسترس نہ تھی، کسی کا دس فٹ بلند جست کرلینا بھی معجزہ کہلایا جاسکتا تھا، لیکن اب طیاروں اور ہوائیوں کے ذریعے سے ہمدوش سریا ہوجانا بھی مستعبد ہیں۔ اولیاء کرام کی خوارق عادات کو ان کی بزرگی کے ثبوت میں پیش کرنا صرف یہی معنی رکھتا ہے کہ آج ہم یورپ کے ایک ایک موجود و مخترع کو صاحب کرامات یقین کرنے پر مجبور ہیں۔
کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ اس وقت بھی جب تمام دنیا میں علم کا اجالا پھیل گیا ہے اور انسان حقیقی معنی میں ’’خلافت الٰہی‘‘ کے دور سے قریب تر ہواجارہا ہے، ہم بدستور اسی زمانہ میں ہیں جب بقول قزوینی و دمیری چیل کے گھونسلے میں پارس پتھر پایا جاتا تھا اور مستقبل کی امیدیں صرف نزول مسیح اور ظہور مہدی سے وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
کاش ہم سمجھ سکتے کہ اس وقت دنیا کو حاجت نہ مہدی کی ہے اور نہ مسیح کی، بلکہ ضرورت ہے ایڈیسن و مارکونی کی، رامان اور بوس کی ، کیونکہ انسان اب معجزہ و کرامات کی حدود سے گزر کر عالم جدوجہد کی اس منزل تک پہنچ گیا ہے جہاں خود اس میں ’’جذبہ الوہیت‘‘ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے اور انسانیت کبری کا مشاہدہ ایک ایسی حقیقت ذاتی کا احساس اس کے اندر پیدا کررہا ہے جس کو اگر ہم چاہیں تو معرفت ربانی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں اور قرب الٰہی سے بھی۔
اس لئے اگر تم قدامت پرستی کی لعنت سے آزاد ہونان چاہتے ہو تو اپنے آپ کو احمق و جاہل نہ سمجھو بلکہ ہو ش گوش والا انسان باور کرکے ہر بات کے سمجھنے کی کوشش کرو۔ اپنے ذہن و دماغ کو نوامیس قدرت کی گتھیاں سلجھانے کا اہل بنا اور پرستش اسلاف ترک کردو کہ اس سے زیادہ سنگ گراں ترقی کی راہ میں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اسی کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت و تعلیم میں بھی اس کا لحاظ رکھو کہ ان کی عقلی آزادی محو نہ ہونے پائے اور دوسروں کی پیروی میں مطالعہ اشیاء کی عادت ان کی ’’حرکت فکر‘‘ کو تباہ نہ کردے۔ پھر اگر تمہاری ایک بھی نسل اس اصول کے تحت ترتیب پاگئی تو سمجھ لو کہ تمہاری تمام مصیبتیں دور ہوگئیں ورنہ کل جو تم کو اور تمہاری اولاد کو دیکھنا ہے، اسے آج میری زبان سے سن لو اور یاد رکھو کہ جس طرح اور ہزاروں اندھی قومیں اب سے قبل تباہ ہوچکی ہیں اسی طرح تم کو بھی تباہ وہ برباد ہوجانا ہے اور خدا اس سے بالکل بے نیاز ہے کہ مسلمان کا وجود دنیا میں باقی رہے یا نہ رہے۔