What Is The Reason Behind Ksaur Incidents? A Report Worth Reading
Posted By: Yasir Sheikh, September 22, 2019 | 05:42:30What Is The Reason Behind Ksaur Incidents? A Report Worth Reading
پنجاب کے ضلع قصور میں بچوں سے ریپ کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہاں پیڈوفیلیا بڑھ رہا ہے؟
نفسیاتی ماہرین کے خیال میں یہ جاننے کے لیے تحقیق کروانے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا یہاں کے کچھ لوگ واقعی پیڈوفیلیا میں مبتلا ہو رہے ہیں یا پھر بچوں سے ریپ کر کے انہیں قتل کرنے کی اور وجوہات بھی ہیں؟
17 ستمبر کو قصور کی تحصیل چونیاں سے ایک بچے کی لاش جبکہ دو کی باقیات ریت کے ٹیلوں سے ملیں۔ یہ بچے گذشتہ اڑھائی ماہ کے دوران لاپتہ ہوئے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹوں کے مطابق انہیں ریپ کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ یہ قصور سے سامنے آنے والا پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے جنوری 2018 میں قصور کی ہی ایک بچی زینب کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔
تحقیقات سے پتہ چلا کہ زینب کیس کے مجرم عمران علی نے زینب بلکہ اس جیسی کئی اور بچیوں کو بھی ریپ کے بعد موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی ذوالفقار حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینب کا قاتل عمران خود بھی بچپن میں ریپ کا شکار رہ چکا تھا اور جب اس کی دماغی حالت کی جانچ کروائی گئی تو اس میں مختلف ذہنی امراض کا انکشاف ہوا تھا۔
زینب کیس سے پیچھے جائیں تو 2015 میں بھی بچوں سے ریپ کے دوران ان کی فلم بندی کرنے کے سینکڑوں کیس سامنے آئے تھے۔
ریپ کے شکار بچوں کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے ساحل کی گذشتہ چھ ماہ کی رپورٹ کے مطابق صرف قصور شہر میں 11 بچے اور 29 بچیاں ریپ سمیت دیگر جرائم کا شکار ہوئے۔ ان میں ریپ کے شکار بچے اور بچیوں کی کُل تعداد 24 اور عمریں چھ سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
ساحل کی سینیئر پروگرام آفیسر سدرہ ہمایوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ان کی اپنی تحقیق کے مطابق کچھ عرصے سے بچوں کا ریپ کرنے والے افراد میں کافی مماثلتیں پائی جاتی ہے، مثلاً اُن کی عمریں 13 سے 25 سال کے درمیان ہیں اور یہ پورن ویڈیوز دیکھتے ہیں اور اپنی تصوراتی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چھوٹے بچوں کا چناؤ کرتے ہیں۔
اسی طرح یہ افراد بچوں پر تشدد کرنے اور انہیں اذیت دینے سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔
سدرہ کا کہنا ہے یہ مماثلت انہیں ریپ کے بعد قتل کیے جانے والے بچوں میں دکھائی دی یا پھر متاثرہ بچوں سے پتہ چلا۔
کیا بچوں سے پر تشدد سیکس کرنے اور پھر انہیں قتل کرنے والے سب مجرم پیڈوفائلز ہیں؟
جب کبھی اخبار (خاص طور پر انگریزی اخبار) میں کسی بچے یا بچی کے ساتھ ریپ کی خبر رپورٹ ہوتی ہے تو اس میں عموماً پیڈوفائل لفظ بھی استعمال ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو صرف بچوں سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے اور انہیں مار بھی سکتا ہے۔
سدرہ ہمایوں کہتی ہیں ریپ کے بعد قتل کرنے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک، ایسا کرنے والے اپنی جنسی تسکین کے لیے پر تشدد سیکس پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے طاقتور کا احساس ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ واقعے کے بعد انہیں پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے۔
کیونکہ اکثر متاثرہ بچہ اُن کا کوئی قریبی رشتہ دار یا واقف کار ہوتا ہے۔
پیڈوفیلیا کوئی کیفیت ہے یا ذہنی بیماری؟
ڈکشنری میں پیڈوفیلیا کا مطلب لکھا ہے: ایک ایسی ذہنی بیماری جس میں بالغ افراد کو بچوں کے ساتھ جنسی فعل سرانجام دینے کی جانب رغبت ہوتی ہے۔ اس لفظ کے دو حصے ہیں: پیڈو کا مطلب بچہ اور فیلیا کا مطلب رجحان یا رغبت۔
نفسیاتی امراض کے ماہر ڈاکٹر شفقت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا پیڈوفیلیا میں انسان بچوں کی طرف جنسی رغبت محسوس کرتا ہے جبکہ ذہنی امراض کی مستند تشخیصی کتاب ڈائیگنوسٹک اینڈ سٹیٹسٹیکل مینیول آف مینٹل ہیلتھ ڈس آرڈر {ڈی ایس ایم۔ ایس] پیڈوفیلیا کو جنسی جنون کی بیماری قرار دیتی ہے۔
اس بیماری میں مریض کو پیڈوفیلیا کے ساتھ متفرق ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں ہو سکتی ہیں جیسے ڈپریشن، اینگزائٹی اور پرسنیلٹی ڈس آرڈر وغیرہ۔
ایسے مریضوں کی عمر کم از کم 16 برس ہوتی ہے اور انہیں اپنے سے کم سے کم پانچ برس چھوٹے بچوں کے بارے میں جنسی خیالات آتے ہیں۔ ڈاکٹر شفقت کہتے ہیں اب تک پیڈوفیلیا کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں مگر جتنی تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق اس بیماری میں مریض کے دماغ کے کچھ حصےصحیح کام نہیں کرتے۔ ’ان کا آئی کیو کم ہوتا ہے، یادداشت میں مسئلہ ہوتا ہے، انہیں پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور دماغ کے وہ حصے جو برے خیالات کو ذہن سےخارج کرنے میں مدد دیتے ہیں وہ بھی ٹھیک سے کام نہیں کرتے۔‘
کیا بچوں سے جنسی تعلق بنانے والے سب پیڈوفائلز ہوتے ہیں؟
نفسیاتی امراض کے ایک اور ماہر ڈاکٹر سعد بشیر کا کہنا ہے پیڈوفیلیا پر پاکستان میں کبھی کوئی تحقیق نہیں کی گئی، البتہ مغرب میں اس پر بہت کام کیا گیا ہے جس کے مطابق پیڈو فیلیا ایک ایسی دماغی
نفسیاتی بیماری ہے جس میں بچوں کو دیکھ کر جنسی خواہش جاگتی ہے اور جو قابو سے باہر ہوتی ہے۔
’یہ پیدائشی طور پر ہوتی ہے۔ جیسے ہم جنس پرستی ہے، ویسے ہی کچھ لوگوں کا جھکاؤ بچوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے میں ہوتا ہے۔’ انہوں نے کہا یہ دماغ میں کوئی بے اعتدالی ہے، کچھ سٹرکچرل تبدیلیاں ہیں
یا پھر موروثی، اس کے بارے میں کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ ناقابل علاج بیماری ہے۔
پیڈوفیلیا کے ساتھ اگر مریض کو سیڈازم بھی ہے تو پھر وہ پُرتشدد جنسی تعلق قائم کرنے کا رجحان رکھتا ہے، یہاں تک کہ متاثرہ بچے کو مار بھی سکتا ہے۔
پیڈوفیلک زیادہ تر جاننے والے بچوں کو اپنی جنسی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دماغی خرابی ہے جس میں آپ ایسے لوگوں کا علاج مظلوم یا ذہنی بیمار کے طور پر بھی کر سکتے ہیں یا پھر انہیں مجرم یا قصور وار کے طور پر لے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سعد کہتے ہیں اس کے علاوہ دو طرح کے لوگ بچوں سے جنسی تعلقات بناتے ہیں ایک وہ جن کی عمر کم ہے، ان کی شخصیت ادھوری ہوتی ہے، یہ لوگوں سے زیادہ گھلتے ملتے نہیں اور اکیلے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ زائد عمر لوگ ہیں جن کی کوئی زندگی نہیں ہوتی اور وہ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق، ایسے لوگ اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ نہیں چل پاتے اس لیے وہ بچوں سے تعلقات بنا لیتے ہیں۔
کیا قصور پیڈو فائلز کا شہر ہے؟
ڈاکٹر سعد کہتے ہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ اگر قصور میں بچوں کے ساتھ ریپ کے کیس سامنے آرہے ہیں تو وہاں سبھی ذہنی بیمار ہیں۔
’اس وقت ضرورت ہے کہ وہاں تحقیق کی جائے اور کوئی سروے کیا جائے۔ اس بات کو بھی پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا کہ جو لوگ بچوں کی فحش فلمیں بنا کر بیچتے ہیں اور لاکھوں، کروڑوں روپے کماتے ہیں کہیں وہ لوگ تو یہاں کے بچوں کو استعمال نہیں کر رہے؟‘
ڈاکٹر سعد کے مطابق پاکستان میں فحش فلموں تک رسائی ایک بٹن سے ممکن ہے، پھر وہ لوگ جو اپنی بیویوں سے دور دوسرے شہروں یا علاقوں میں کام کر رہے ہیں وہ اپنی جنسی ضروریات ایسے لوگوں کے ساتھ پوری کرتے ہیں جو ردعمل نہیں دکھا سکتے یا خود کو بچا نہیں سکتے اور اکثر بچے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر سعد کہتے ہیں ہمارے ہاں ساتھیوں اور دوستوں کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہم بہت سی چیزیں صرف اس لیے کرتے ہیں کہ کیونکہ ہمارے دوست یا اردگرد کے لوگ ایسا کر رہے ہیں مثلاً شراب نوشی یا جنسی رویہ وغیرہ۔
قصور میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے ڈاکٹر سعد کا کہنا تھا اگر زینب کیس کا ذکر کریں تو انہوں نے بہت قریب سے مجرم عمران پر تحقیق کی تھی، جو مختلف ذہنی امراض کا شکار تھا۔
ڈاکٹر سعد کے مطابق پیڈوفیلک رویے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے کہ خود پیڈوفیلیا جو ایک بیماری ہے، یا وہ لوگ جو اکیلے پن کا شکار ہیں جن کے پاس کوئی اور راستہ نہیں، پھر وہ نوجوان جن کی شخصیت میں عدم توازن ہے، ایک پوری رینج ہے جن میں پیڈوفیلک رویہ ملتا ہے۔
’ایسے لوگوں کے دماغ کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ پتہ چل سکے ان کے ساتھ کون سا دماغی یا نفسیاتی مسئلہ ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔‘
کیا پیڈوفیلیا یا ذہنی بیماری کی بنیاد پر قانون ایسے لوگوں کو بری کر دے؟
ڈاکٹر سعد کہتے ہیں مغربی ممالک میں ایسے لوگوں کی سزا عام مجرموں سے زیادہ لمبی اور سخت ہوتی ہے کیونکہ عدالت انہیں ذہنی امراض کے ہسپتالوں میں بھیج دیتی ہے جہاں وہ ساری عمر گزارتے ہیں اور ایسی ادویات استعمال کرتے ہیں جو ان کی جنسی خواہشات ختم کردیتی ہیں۔
’یہ لوگ باہر نہیں جاسکتے اور ساری زندگی ہسپتالوں میں گزارتے ہیں۔ جب تک ہم ان مسائل کی جڑ تک نہیں پہنچتے یہ واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ ہمیں اس کے لیے ایک پورا طریقہ کار وضح کرنا ہوگا۔‘
پاکستان میں ذہنی مریضوں کے لیے قانون کیا کہتا ہے؟
ماہر قانون زین علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا جب کسی ملزم پر شک ہوتا ہے کہ اس سے جرم کسی نفسیاتی یا دماغی بیماری کے سبب ہوا تو اس کے لیے ایک میڈیکل بورڈ بنایا جاتا ہے۔
’اگر بورڈ کے ڈاکٹر ملزم میں ذہنی مسائل یا بیماری کی تصدیق کردیں تو اسے عدالت سے بری کردیا جاتا ہے، پھر چاہے اس نے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو۔ اسے ذہنی امراض کے ہسپتال داخل ہونے کا مشورہ دیا جاتا ہے مگر اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا ملزم اور اس کے قریبی رشتے داروں پر ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے ہاں ذہنی مسائل کابہانہ کر کے بہت سے ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔‘
Source