The bride turned out to be a boy after wedding in Swat
Posted By: Saif, April 23, 2022 | 09:03:08The bride turned out to be a boy after wedding in Swat
سوات کے رہائشی کی پولیس کو شکایت: ’دلہن لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے‘
مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری شادی ایک لڑکی سے نہیں بلکہ ایک لڑکے سے ہو رہی ہے، اور شادی کی پہلی رات جب میں کمرے میں گیا تو بظاہر دلہن نے بیماری کا کہہ دیا تھا جس کے بعد وہ کمرے میں نہیں گیا۔
یہ شادی میرے اپنے رشتہ داروں میں ہوئی تھی اور انھوں نے کچھ نہیں بتایا جس سے میری شادی ہو رہی ہے وہ لڑکی ہے ، لڑکا ہے یا خواجہ سرا ہے۔
خیبر پختونِخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ میں چار سال پہلے ہوئی شادی پر اب عدالتی کارروائی ہو رہی ہے ۔ مٹہ کے رہائشی عبدالرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے بڑی چاہ سے یہ شادی کی تھی لیکن معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلسل انکار کے بعد انھیں شک گزرا اور وہ شادی کے تیسرے روز اپنی دلہن کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے کیونکہ اسے بتایا گیا تھا کہ اس کے جسم پر دانے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا کہ معاملہ دانوں کا نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے اور اب اگر تم اس کی جنس کا علاج کرا سکتے ہو تو کرالو جس پر میرے بارہ لاکھ روپے خرچ ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر دلہن کے روپ میں موجود لڑکے، لڑکی یا خواجہ سرا نے کہا کہ انھوں نے اپنے والد سے کہا تھا کہ وہ شادی کے قابل نہیں ہے لیکن ان کی نہیں سنی گئی اور یہی کہا گیا کہ ابھی تو تم جاؤ پھر دیکھتے ہیں۔
عبدالرحمان نے بتایا کہ میں شادی کے دو ہفتے بعد واپس ملائشیا چلا گیا تھا لیکن وہاں سے اپنے گھر والوں سے رابطے میں رہا اور بظاہر میرے گھر آنے والی دلہن کا علاج بھی جاری تھا۔
شادی کے کوئی ایک سال بعد دلہن اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور اس کے بعد دونوں گھروں کے افراد ڈاکٹروں کے پاس گئے جہاں انھیں بتایا گیا کہ یہ لڑکی نہیں ہے۔ اب میڈیکل رپورٹس میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ دلہن لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے۔
عبدالرحمان نے تحریری شکایت ضلع پولیس افسر کو دی تھی جس پر تھانہ مٹہ نے قانونی کارروائی کرتے ہوئے رپورٹ درج کی اور تفتیش کے بعد تین افراد کو گرفتار کیا ہے جس میں لڑکا ، اور ان کے والدین شامل ہیں۔
پولیس رپورٹ میں کیا ہے؟
ولیس تھانے میں درج رپورٹ کے مطابق عبدالرحمان کی شادی بظاہر فضیلت (فرضی نام) لڑکی سے 2017 میں ہوئی تھی۔ عبدالرحمان ان دنوں ملائشیا سے چھٹی پر آئے ہوئے تھے۔ رخصتی کے بعد عبدالرحمان کی خواہش کے باوجود وہ اپنی بیوی سے ازدواجی تعلق قائم نہیں کر سکے اور اس کی وجہ پولیس تھانے میں یہی بتائی گئی کہ بظاہر دلہن نے بیماری کے بہانے کر رکھے تھے۔ عبدالرحمان بیوی سے کوئی تعلق قائم کیے بغیر ہی واپس روزگار کے لیے ملائشیا چلے گئے تھے۔
پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شادی کے ایک سال بعد لڑکی اور لڑکے کے والدین لڑکی کو علاج کے لیے ڈاکٹروں کے پاس لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے اور ڈاکٹروں کی رپورٹ بھی حاصل کر لی گئی تھی ۔
عبدالرحمان اس سال ملائشیا سے واپس وطن پہنچا تو اسے حالات سے آگاہی ہوئی اور عدالت کے حکم پر بظاہر ان کی دلہن کا میڈیکل معائنہ کرایا گیا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق چار ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ وہ لڑکا ہے۔
یہ رپورٹ دھوکہ دہی کے دفعات کے تحت درج کی گئی ہے اور درخواست گزار کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ ان کے لڑکے کی جنس غیر واضح ہے بلکہ مردانہ اثرات حاوی ہیں۔
پولیس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ جسے لڑکی سمجھ کر شادی کرائی گئی اس کا نام عزت خان ہے اور یہ کہ عدالتی حکم پر میڈیکل بورڈ میں بھی بتایا گیا ہے کہ یہ لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے۔
ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟
دنیا میں غیر واضح جنس کے افراد کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اسی طرح کے واقعات یہاں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے سامنے پیش آتے رہتے ہیں۔
پشاور میں جنسی امور کے ماہر ڈاکٹر میر عابد جان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح کے لوگ موجود ہیں جن کی جنس غیر واٰضح ہوتی ہے اور انھیں اس کا علم نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے لیے یہ ایک مشکل صورتحال ہوتی ہے اور اس میں والدین کو بھی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر واضح جنس میں اعضاء کے علاوہ اندرونی طور پر بھی ساخت مختلف ہوتی ہے اور یہ مکمل معائنے کے بعد معلوم ہو پاتا ہے کہ اندرونی طور پر جسم کی ساخت مردانہ یا زنانہ طور پر حاوی ہے اور پھر اسی حساب سے علاج بھی کیے جاتے ہیں۔
Source: BBC Urdu