Chief Justice Umar Ata Bandial's important remarks after Justice Mandokhail's separation from bench
Youtube
الیکشن التواء کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال جذباتی ہوگئے، ریمارکس دیتے ہوئے ان کی آواز بھر آئی، سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل کی اٹارنی جنرل کی درخواست مسترد کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دینا تھا، 2019ء سے 2021ء تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فل کورٹ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی، سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس کی بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، سپریم کورٹ کے ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، عدالتِ عظمیٰ متحد تھی اور کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزا دوں، جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں، سپریم کورٹ میں 20 سال کی نسبت بہترین ججز ہیں، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے پڑھیں، جسٹس شاہد وحید نے کل بہترین اختلافی نوٹ لکھا، آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جا رہا ہے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو پھر میرا سامنا کرنا پڑے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا تھا، میری زندگی کا معجزہ تھا کہ جب ججز بحال ہو کر واپس دفاتر میں آئے، 90ء کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آ سکے، اس واقعے نے میرا زندگی کا نظریہ ہی بدل دیا، آئین ہی جمہوریت کو زندہ رکھتا ہے، کل تک جو جیلوں میں تھے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی 5 سال کی مدت ہوتی ہے لیکن ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، اسمبلیاں تحلیل ہونے سے لے کر اب 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللّٰہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کیا، جو کچھ آج تک کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا، ٹیکس کا معاملہ ہے تو متعلقہ افسر کو کہیں ٹریس کریں، ٹیکس کے معاملے پر کیسے جج کا ٹرائل کریں؟ جسٹس اقبال حمید الرحمٰن کو استعفے سے روکا تھا، جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن نے کہا تھا کہ مرحوم باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں اپنے دلائل جلدی ختم کر دوں گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف پورا نہیں سنا گیا۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بات مکمل کرنے دیں۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میں صرف 3 منٹ بات کرنا چاہتا ہوں، روز مجھے گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے، آپ جذباتی ہو سکتے ہیں تو ہم بھی ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ آپ کو سنیں گے، آپ نے 3 منٹ کا کہا ہے۔
وکیل عرفان قادر نے کہا کہ 3 منٹ نہیں بلکہ مختصر بات مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیس کی بات کریں، میں اِدھر اُدھر کی باتوں سے جذباتی ہو گیا تھا، مسئلہ ملک میں سیکیورٹی کا بھی ہے، نصف پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس یا حساس ہیں، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ ملک میں دہشت گردی ہے، دہشت گردی تو 90ء کی دہائی سے ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ افواج بارڈر پر مصروف ہیں، یہ بھی دیکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آج عدالت کا جاری سرکلر دیکھا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا نوٹ بھی پڑھا ہے، وہ بینچ سے الگ ہو چکے ہیں، دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوال کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ 2 ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں کہاں لکھا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب سیکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ پہلے آپ سیاسی جماعتوں کو سن لیں، بعد میں دلائل دوں گا، ملک کے معاشی حالات پر عدالت کو آگاہ کروں گا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 8 اکتوبر تک انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں اس پر جواب دیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک، اکرم شیخ اور کامران مرتضیٰ کو بھی سنیں گے، پہلے ریاستِ پاکستان کو سننا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ معاملہ 20 ارب روپے کا نہیں پوری معیشت کا ہے، ملک کو 1500 ارب کے خسارے کا سامنا ہے، 30 جون تک شرحِ سود 22 فیصد تک جا سکتی ہے، شرحِ سود بڑھنے سے قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ماضی کے قرضوں پر بھی نئی شرح سود لاگو ہوتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ دوسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کے تناسب کا ہے، تیسرا نکتہ یکم مارچ کے فیصلے کی بنیاد پر ہی ہے، موجودہ درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی حکم ہے، 9 رکنی بینچ کے 2 اراکین نے رضاکارانہ بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے کہا کہ 2 ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے؟ عدالت کا 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں کہاں لکھا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب! سیکیورٹی اور فنڈز پر بات کریں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ حکومت کے پاس اس وقت کتنا پیسہ موجود ہے؟ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں کتنی رقم موجود ہے، اگر 20 ارب خرچ ہوتے ہیں تو خسارہ کتنے فیصد بڑھے گا، 1500 ارب خسارے میں 20 ارب سے کتنا اضافہ ہو گا؟ الیکشن کے اخراجات شاید خسارے کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپلیمنٹری بجٹ میں 170 ارب کی توقع ہے، اگر پورا جمع ہو گیا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز کس کے کنٹرول میں ہوتا ہے؟
اٹارنی جنرل پاکستان نے جواب دیا کہ فنڈز وزارتِ خزانہ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا اکتوبر تک بجٹ خسارہ ختم ہو جائے گا؟
اٹارنی جنرل پاکستان نے جواب دیا کہ امید ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہو کر فنڈز مل جائیں گے، موجودہ مالی سال میں الیکشن کا نہیں سوچا تھا، کیا عدالت اس موقع پر فل کورٹ کی استدعا قبول کرے گی؟
جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ لگتا ہے آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر آپ کو وقت درکار ہے تو فراہم کر دیں گے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ عدالت اس دوران فل کورٹ کی استدعا پر غور کرے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ 3 دن تک عدالت نے مکمل سماعت کی، جو قیمتی وقت گزر چکا مزید ججز شامل کرنے سے ضائع ہو گا، نئے ججز کو کیس شروع سے سننے اور سمجھنے میں وقت لگے گا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے اعداد و شمار بتائے، حکومت سے ان کی تصدیق چاہتے تھے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز واضح ہیں کہ 184/3 کے مقدمات 2 سے زیادہ رکنی بینچ سنے گا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت کے سامنے فریقین وہ ہیں جو حکومتیں چلاتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے 3 ایشوز پر بات کرنے کی ہدایت دی گئی ہے، سوموار تک فریقین کو سوچنے کا موقع دیا جائے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2021ء کے از خود نوٹس والے عدالتی فیصلے کو پڑھیں، فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے، حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ انتہائی سنگین الزام ہے، سپریم کورٹ کہہ چکی کہ چیف جسٹس بینچ ماسٹر آف دی روسٹر ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کا ذکر کرنے کی نہیں تھی، عدالت کے باہر درجۂ حرارت بہت زیادہ ہے، تمام ججز کے لکھے گئے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کسی مقابلۂ حسن میں نہیں عدالت میں بیٹھتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی قانون کی بات کرنا چاہتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ شاید 3 منٹ بات کر کے لاہور جانا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین کی منشا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہو تو 90 دن میں انتخابات ہوں، 90 دن میں اب الیکشن نہیں ہو سکتے تو مزید کتنے دن درکار ہوں گے؟ کتنے دن درکار ہوں گے عدالت نے اس نقطے پر غور کرنا ہے، کوئی ضابطہ اور قانون فل کورٹ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کے لیے صرف درخواست دی جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے، انتخابات تک تمام فریقین سے پُرامن رہنے کی گارنٹی چاہتے ہیں۔
سماعت 3 اپریل تک ملتوی
عدالتِ عظمیٰ نے سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ نے فل کورٹ کی تشکیل کی اٹارنی جنرل کی درخواست مسترد کر دی اور کیس کی سماعت 3 اپریل تک ملتوی کر دی۔
Source