Why government is afraid of taking action against Jamia Hafsa?
Posted By: Zafar, June 23, 2023 | 17:47:47Why government is afraid of taking action against Jamia Hafsa?
جامعہ حفصہ کی طالبات کا احتجاج: دھمکیوں کے باوجود ریاست کارروائی کرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے؟
ٹی ٹی پی والوں سے سوال کرتی ہوں کہ تم سنہ 2007 سے ہمارے لیے لڑ رہے ہو کیا اپنے باپ پر حملہ برداشت کرو گے۔۔۔‘
یہ بیان لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان کی جانب سے گذشتہ روز سامنے آیا جس میں وہ اپنے شوہر پر سی ٹی ڈی کے مبینہ حملے کی تفصیلات بتا رہی ہیں اور تحریکِ طالبان پاکستان کو سی ٹی ڈی سے بدلہ لینے کا کہہ رہی ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد اور اس کے گردو نواح میں گذشتہ روز سامنے آنے والے مناظر اور اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز نے اکثر افراد کی ماضی کے بارے میں کچھ یادیں تازہ کر دی ہیں۔
حالیہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب اسلام آباد پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے کے مطابق سیکٹر جی 7 میں میلوڈی اشارے کی جانب آتی گاڑی کو ’مشکوک مسلح اشخاص‘ کی موجودگی کی اطلاع پر روکا گیا جس میں لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز بھی موجود تھے۔
پولیس کے مطابق مولانا عبدالعزیز نہ صرف انسدادِ دہشتگردی کے مختلف مقدمات میں اشتہاری ہیں بلکہ ان کا نام فورتھ شیڈول میں بھی درج ہے۔
تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے کے مطابق گاڑی روکنے پر مولانا عبدالعزیز سمیت مسلح افراد نے پولیس پر فائرنگ کر دی۔
امِ حسان کی جانب سے جاری ویڈیو میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے اپنے محافظوں کی کلاشنکوف لے کر پولیس پر فائرنگ کی تھی۔
پولیس دیگر مسلح افراد (جنھیں مولانا عبدالعزیز کے محافظ بتایا جا رہا ہے) کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئی لیکن ’مولانا عبدالعزیز اس دوران بچ نکلے۔‘
ملزمان کے خلاف انسدادِ دہشتگردی کی دفعات سمیت دیگر دفعات پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
امِ حسان کی ٹی ٹی پی سے مدد کی درخواست اور تحریکِ طالبان کا اعلامیہ
اس واقعے کے بعد لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی خواتین کی جانب سے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں احتجاج کیا گیا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں۔ مدرسے کی ڈنڈا بردار خواتین کی جانب سے بدھ کو اسلام آباد کی کئی سڑکوں کو بھی بند کیا گیا۔
اس دوران مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان کی ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں وہ سی ٹی ڈی کو براہِ راست سنگین دھمکیاں دیتے ہوئے تحریکِ طالبان پاکستان سے مدد مانگ رہی ہیں۔
پولیس کی جانب سے اس واقعے کی ایف آئی آر تو درج کر لی گئی تاہم امِ حسان کے اس بیان پر کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
اس بارے میں جب ہم نے آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور پولیس پاکستان کے آئین کے مطابق اپنا کام کرتی رہے گی۔‘
پولیس کی جانب سے تو تاحال اس حوالے سے کوئی ٹھوس کارروائی سامنے نہیں آئی لیکن جمعرات کو تحریکِ طالبان پاکستان کے عمر میڈیا کی جانب سے جاری ایک بیان میں واقعے کی مذمت کی گئی اور مولانا عبدالعزیز کے خاندان کو ’تنہا نہ چھوڑنے‘ کی یقین دہانی کروائی گئی۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعلامیے میں سنہ 2007 کے لال مسجد آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس مرتبہ بھی ’کارروائی کے نتیجے میں خاموش نہیں رہا جائے گا اور شدید انتقام لیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2007 میں لال مسجد میں فوجی آپریشن کے دوران مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں لال مسجد کی سابق انتظامیہ کے بقول خواتین بھی شامل تھیں تاہم ضلعی انتظامیہ اس دعوے کی تردید کرتی رہی ہے۔
مولانا عبدالعزیر اس آپریشن میں برقعہ اوڑھ کر فرار ہو گئے تھے جبکہ ان کی والدہ اور بھائی اس آپریشن میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس آئین و قانون کے مطابق ہی کارروائی کر سکتی ہے پالیسی بنانا تو پولیس کا کام نہیں۔
’ٹی ٹی پی سے ان کے تعلقات کے بارے میں شک کی گنجائش کبھی نہیں تھی‘
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لال مسجد کی متنازع تاریخ کے باوجود کیا وجہ ہے کہ ریاست کی جانب سے اس حوالے سے گذشتہ کئی برسوں میں بھی ٹھوس کارروائی نہیں کی جا سکی ہے۔ یہی سوال ہم نے پاکستان میں دہشتگردی کے موضوع پر جامع کتاب فرنٹ لائن پاکستان کے مصنف اور تجزیہ کار زاہد حسین سے پوچھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں کہ القاعدہ سے ان کا پرانا تعلق رہا ہے جس وجہ سے ان کے خلاف سنہ 2007 آپریشن ہوا تھا اور اسی کے نتیجے میں ٹی ٹی پی قائم ہوئی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب یہ پچھلی مرتبہ مسئلہ بنا تھا تو تب یہ ایک الیکشن ایشو بن گیا تھا اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اس کو بنیاد بنا کر الیکشن بھی لڑا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ آتا ہے کہ ریاست نے اس حوالے سے ایک طویل عرصے سے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور جن چیزوں سے ان کو فائدہ پہنچتا رہا یہ ابھی کی بات تو نہیں ہے نہ، لال مسجد پر جو بھی کارروائیاں ہیں ان کی وہ تو جاری ہیں۔
’ان میں کمی تو کبھی بھی نہیں آئی اور ان کے ٹی ٹی پی سے تعلقات کے بارے میں شک کی تو گنجائش کبھی بھی نہیں تھی۔‘
خیال رہے کہ سنہ 2014 میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں اے پی ایس حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی تاہم مولانا عبدالعزیز کی جانب سے اس واقعے کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔
زاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں پہلے بھی یہی ہوا تھا کہ انھیں اجازت دیتے رہے، ڈھیل دیتے رہے اور پھر جب فوجی آپریشن ہوا تو اس کے اثرات بھی ہم نے دیکھ لیے تھے۔
’سیاسی جماعتیں خود ان کے خوف کی شکار ہیں کہ جب کارروائی کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے تو پھر باقی ساری چیزیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لال مسجد کی سرگرمیاں اور ٹی ٹی پی کی دوبارہ کارروائیاں ریاست کی ناکامی اور پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔‘
زاہد حسین سے جب پوچھا گیا کہ اس حوالے سے حکومت کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’آپ دیکھیے گا اس میں ان کی پھر مفاہمت ہو جائی گی، ان کا کوئی ارادہ نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی۔‘
’اس وقت ریاست مفلوج ہو چکی ہے اور سیاسی جماعتیں بھی ایسے معاملات میں پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔‘
Source: BBC Urdu