Top Rated Posts ....

Wagner Group Launches Russian Military Coup Against Vladimir Putin

Posted By: Sohail, June 24, 2023 | 10:37:14


Wagner Group Launches Russian Military Coup Against Vladimir Putin



صدر پوتن کا ’مسلح بغاوت‘ کے الزام میں ویگنر جنگجوؤں کو ’سخت سزا‘ دینے کا عہد

روس کی جانب سے اپنے پرائیوٹ یا کرائے کے جنگجو گروہ ویگنر پر ’مسلح بغاوت‘ کے الزامات اور جمعے کی رات سے روسی فوجیوں اور ویگنر جنگجوؤں میں کشیدگی کے بعد صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ روس کو تقسیم کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔

انھوں نے سنیچر کو اپنے مختصر ٹی وی خطاب میں اس بات پر بھی زور دیا کہ روس کے دفاع کا عہد کرتے ہوئے بحران سے نمٹنے کے لیے تمام ’ضروری احکامات‘ دے دیے گئے ہیں۔

صدر پوتن کا کہنا ہے کہ روس کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، انھوں نے باغیوں کی کارروائیوں کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزین کا ذکر کیے بغیر صدر پوتن کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کے ’عزائم‘ ’غداری‘ کا باعث بنے ہیں۔

اپنے خطاب میں پوتن نے باغی ویگنر جنگجوؤں کا ذکر کیے بغیر کہا کہ کچھ روسیوں کو ’مجرمانہ مہم جوئی میں پھنسایا گیا‘

تاہم انھوں نے ویگنر گروہ کے جنگجوؤں کا ذکر کرتے ہوئے روس کے دفاع کے لیے لڑنے میں ان کی تعریف کی ہے۔

واضح رہے روس کی فوج اور اس کی کرائے کی ویگنر فورس کے جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے بعد جمعے کی رات سے روس میں سکیورٹی سخت کر دی گئی، انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی اور ماسکو کی سڑکوں پر فوجی ٹرک دیکھے گئے ہیں۔

جبکہ روس کی پرائیوٹ آرمی یا کرائے کے لڑاکا گروپ ویگنر کے سربراہ نے روس کی فوجی قیادت کو ’ہر طرح سے گرانے‘ کا عزم کیا ہے۔ انھوں نے یہ اعلان کریملن کی جانب سے اس پر 'مسلح بغاوت' کا الزام لگانے کے چند گھنٹے بعد کیا تھا۔

صدر پوتن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اب دارالحکومت ماسکو اور کئی دوسرے خطوں میں انسداد دہشت گردی کی حکومت قائم ہے۔

ادھر مقامی خبر رساں ادارے فونٹنکا نے رپورٹ کیا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ روسی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ویگنر کے دفتر پر چھاپہ مارا ہے۔

مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ’قانون نافذ کرنے والے سینٹ پیٹرزبرگ کی زولنیا سٹریٹ پر واقع پی ایم سی ویگنر سینٹر میں داخل ہو گئے ہیں۔‘

رپورٹ کے مطابق رائٹس پولیس اور نیشنل گارڈز کے ساتھ دو بسیں عمارت میں پہنچی ہیں، جو سادہ لباس میں لوگوں کے ساتھ داخل ہو رہی ہیں۔

فونٹنکا نے ہفتے کے روز اپنے ٹیلیگرام چینل پر چھاپے کے بارے میں پوسٹ کیا۔ ادارے نے دعویٰ کیا کہ ’ماسک پہنے اور خودکار رائفلوں والے‘ اہلکاروں کو سینٹ پیٹرزبرگ کے بلاگوویشچینسکی پل کے قریب تعینات کیا گیا تھا، جہاں ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن کے ایک ہوٹل اور ایک ریستوراں واقع ہے۔

فونٹانکا نے بعدازاں ایک ویڈیو شائع کی جس میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو ویگنر سینٹر میں داخل ہوتے اور پرگیوزن سے منسلک جائیدادوں کے قریب مسلح افراد کو کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ سنیچر کی صبح منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں مبینہ طور پر ویگنر کی افواج کو روسی شہر روسٹوو آن ڈان میں داخل ہوتے دکھایا گیا ہے۔

ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزِن نے کہا کہ ان کے ویگنر جنگجو یوکرین سے روس کی سرحد عبور کر کے روسٹوو آن ڈان شہر میں داخل ہوگئے ہیں۔ اور انھوں نے کہا کہ ان کے آدمی ان کے راستے میں کھڑے ہونے والے ہر شخص کو تباہ کر دیں گے۔

انھوں نے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ویگنر کے جنگجو شہر کی ناکہ بندی جاری رکھیں گے اور ماسکو کی طرف بڑھیں گے جب تک کہ دفاعی سربراہ سرگئی شوئیگو اور ویلری گیراسیموف آکر ان سے ملاقات نہ کریں۔

مقامی گورنر نے وہاں کے شہریوں پر زور دیا کہ وہ پرسکون رہیں اور گھروں کے اندر رہیں۔

مسٹر پریگوزِن نے دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے ایک روسی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا ہے جس نے ’ایک شہری قافلے پر فائرنگ کی' تھی۔ انھوں نے اس کے متعلق زیادہ تفصیل نہیں اور ان کے اس دعوے کی فوری تصدیق نہیں ہو سکی۔

ویگنر گروپ کرائے کے فوجیوں پر مشتمل ایک نجی فوج ہے جو یوکرین میں باقاعدہ طور پر روسی فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔

یوکرین کے خلاف جنگ کیسے لڑی جائے اس پر ان کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، مسٹر پریگوزن نے حالیہ مہینوں میں روس کی عسکری قیادت پر شدید تنقید کی ہے۔

جمعہ کے روز 62 سالہ یوگینی پریگوزِن نے روسی فوج کی جانب سے اپنے فوجیوں پر مہلک میزائل حملہ کرنے کا الزام لگایا اور انھیں سزا دینے کا عزم کیا۔ تاہم انھوں نے شواہد فراہم نہیں کیے۔

روس کے حکام نے حملے کی تردید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ویگنر گروپ اپنے ’غیر قانونی اقدامات‘ کو روکے۔

’انصاف کے لیے مارچ‘

مسٹر پریگوزن نے کہا کہ روس کی فوجی قیادت کی ’برائی‘ کو روکنا چاہیے اور انھوں نے ’انصاف کے لیے مارچ‘ کرنے کا عزم کیا۔

دریں اثنا کریملن مخالف ٹائیکون نے روسیوں سے ویگنر کے سربراہ کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔ کریملن مخالف شخصیت میخائل خودورکووسکی نے روسیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزن کی حمایت کریں جنھوں نے ماسکو کی فوجی قیادت کو گرانے کا عزم کیا ہے۔

میخائل خودورکووسکی کبھی روس کے امیر ترین اولیگارک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمیں ابھی ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہم ان سے بھی لڑیں گے۔‘

ولادیمیر پوتن کے ساتھ نااتفاقی کے بعد انھوں نے 10 سال روسی جیل میں گزارے اور حال ہی میں انھوں نے روسی صدر کے خلاف سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ خودورکووسکی نے کہا کہ اگر پریگوزن نے کریملن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ان حالات میں ’شیطان کی بھی‘ حمایت کرنا ضروری ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تو صرف شروعات ہے۔‘

ماسکو کے میئر نے اعلان کیا ہے کہ دارالحکومت میں سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانین نے ٹیلیگرام پر لکھا کہ ’موصول ہونے والی معلومات کے پیش نظر ماسکو میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کا مقصد حفاظتی اقدامات کو مضبوط بنانا ہے۔ سڑکوں پر اضافی سکیورٹی تعینات کی جا رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے میں عوامی تقریبات کے انعقاد کو ممکنہ طور پر محدود کیا جا سکتا ہے۔ براہ کرم سمجھ بوجھ کے ساتھ اٹھائے گئے اقدامات کی اہمیت کو سمجھیں۔‘

اس سے قبل ویگنر کے سربراہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر پوسٹ کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ ’جن لوگوں نے ہمارے جنگجوؤں کو قتل کیا، اور دسیوں ہزار روسی فوجیوں کی (یوکرین کی جنگ میں) جانیں ضائع کیں، انھیں سزا دی جائے گی۔‘

ویگنر گروپ کیا ہے؟

سنہ 2014 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یہ بات سامنے آنے لگی تھی کہ پریگوزِن کوئی عام تاجر نہیں تھے بلکہ ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی سے ان کے منسلک ہونے کی بات سامنے آئی۔ سب سے پہلے مشرقی ڈونباس کے علاقے میں اس نجی فوج کے یوکرین کی افواج سے لڑنے کی اطلاع ملی تھی۔

اسے عام طور پر ’ویگنر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یوکرین کے علاوہ ویگنر پورے افریقہ اور دیگر علاقوں میں سرگرم تھے۔ یہ گروپ ہمیشہ ایسے کام انجام دے رہا تھا جس سے کریملن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

اس وقت اس گروپ کی کمان یوگینی پریگوزن کے ہاتھوں میں ہے۔

دی جیمسٹائن فاؤنڈیشن تھنک ٹینک کے سینیئر فیلو ڈاکٹر سرگئی سکھانکن کے مطابق ویگنر گروپ کو دمتری یوٹکن نامی شخص نے بنایا تھا۔

وہ سنہ 2013 تک روسی سپیشل ملٹری سکواڈ میں شامل رہے۔

سکھانکن کہتے ہیں کہ ’ویگنر گروپ میں انھوں نے 35 سے 50 سال کی عمر کے ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جو خاندان یا قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر چھوٹے شہروں سے آتے تھے اور جن کے پاس ملازمت کے مواقع کم تھے۔ ان میں سے کچھ چیچنیا کے تنازعات میں اور کچھ روس-جارجیائی جنگجوؤں میں شامل تھے۔ انھیں جنگ کا تجربہ تھا، لیکن وہ عام زندگی میں اپنی جگہ نہیں پا سکے۔‘

سرگئی کا کہنا ہے کہ انھیں روسی ملٹری انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے قریب ایک جگہ پر تقریباً تین ماہ تک تربیت دی گئی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس گروپ کے تار روسی فوج سے جڑے ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اس گروپ کے جنگجوؤں کو دنیا کے کئی سورش زدہ علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں روس اس کا خواہشمند تھا کیونکہ وہ چیچنیا اور افغانستان کی غلطی کو نہیں دہرانا چاہتا تھا۔ پوتن کو ڈر تھا کہ اگر غیر ملکی سرزمین پر فوجی کارروائیوں میں مزید روسی فوجی مارے گئے تو اس سے لوگوں میں غصہ بڑھ جائے گا۔‘

چیچنیا اور افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں ہزاروں روسی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ویگنر گروپ سرکاری طور پر فوج کا حصہ نہیں تھا، اس لیے اسے مہم میں شامل کرنے سے ہلاکتوں کی تعداد کو کم رکھنے میں مدد ملی۔


Source




Follow Us on Social Media

Join Whatsapp Channel Follow Us on Twitter Follow Us on Instagram Follow Us on Facebook


Advertisement





Popular Posts

Comments...