Taliban directly attacked Pakistan army's check posts in Chitral
Posted By: Nasir, September 10, 2023 | 17:09:48Taliban directly attacked Pakistan army's check posts in Chitral
چترال میں فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ: ’رات دو بجے شروع ہونے والی لڑائی دن ایک بجے کے بعد تک جاری رہی‘
پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ کیلاش کے پہاڑی علاقے میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے بعد بھی فائرنگ کی گونج سنائی دیتی رہی تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ صورتحال اب کنٹرول میں ہے اور خطرے کی کوئی بات نہیں۔
بی بی سی کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس وقت چترال میں موجود وادی کیلاش اور اس سے ملحقہ علاقوں میں پانچ ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار اور 25 سے زیادہ سکیورٹی چیک پوسٹس قائم ہیں۔
کیلاش کے علاوہ چترال بھر میں سکیورٹی الرٹ ہے۔
علاقے کے انتظامی سربراہ ڈپٹی کمشنر محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گذشتہ روز بھی پاک افغان سرحد پر فائرنگ ہوئی لیکن چیزیں ہمارے کنٹرول میں ہیں‘ تاہم ڈی سی اپر چترال نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان اطلاعات کی تردید کی کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو طالبان نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ چھ ستمبر کی شام پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے ایک تحریری بیان میں تصدیق کی تھی کہ چترال میں افغان سرحد کے ساتھ دو مقامات پر شدت پسندوں نے حملہ کیا اور جھڑپوں میں چار فوجی ہلاک اور بارہ شدت پسند مارے گئے۔
جن دو مقامات استوئی اور جنجیرت کے بارے میں فوج نے بتایا کہ وہاں جدید اسلحے سے لیس شدت پسندوں نے حملہ کیا، وہاں فوجی چیک پوسٹس موجود تھیں۔
’طالبان نے اس بار ہمارے بجائے فوجیوں کو نشانہ بنایا‘
مقامی ذرائع کے مطابق فوجیوں کی آمد صبح سویرے سے جاری تھی اور اب بھی وادی میں درجنوں فوجی گاڑیاں اس آخری مقام تک موجود ہیں جہاں سے آگے پیدل پہاڑوں پر تین سے چار گھنٹے سفر کر کے جانا پڑتا ہے۔
بی بی سی نے چترال شہر اور وادی کیلاش میں موجود مقامی افراد اور چند سرکاری اہلکاروں سے بات کی۔
یہ کیلاشیوں کے لیے پہلا موقع نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی سنہ 2018 میں پہاڑوں پر موجود یہ چراہ گاہیں طالبان کا نشانہ بن چکی ہیں۔
ایک چراہ گاہ کے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے طالبان ہمیں اور ہماری چراہ گاہوں کو نشانہ بنا چکے ہیں لیکن اس بار انھوں نے ہمیں کچھ نہیں کہا بلکہ ہماری چراہ گاہوں سے نیچے فوج کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔
پاک افغان سرحد جہاں فوج کی کارروائی ہو رہی تھی وہاں آبادی تو نہیں لیکن نیچے سینکڑوں کیلاشی گھرانے آباد ہیں جو خود کو ایسی صورتحال میں بہت زیادہ غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔
ایک چراہ گاہ کے مالک نے بتایا کہ فوج اور طالبان کی لڑائی سے دو روز پہلے چراہ گاہ میں موجود میرے بھائی اورعزیزوں کو بتایا گیا تھا کہ ’بکریاں لے کر نیچے چلے جائیں، سرحد کی جانب سے اوپر پہاڑ پر لوگ آئے ہیں۔‘
چراہ گاہ کے مالک کے بقول استوئی کے اس علاقے میں جہاں فوجی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا گیا وہاں سے اوپر اور بھی بہت سے لوگوں کی چراہ گاہیں ہیں اور سینکڑوں بکریاں اور درجنوں لوگ ان کی حفاظت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری چراہ گاہ میں موجود اور دیگر چراہ گاہوں کے لوگ فوج کی چیک پوسٹوں سے نیچے اپنے کچھ مویشیوں کے ساتھ آ گئے۔
’انھوں نے ایک دن نیچے گزارا لیکن پھر انھیں کہا گیا کہ اوپر کوئی نہیں۔ آپ واپس چلے جائیں لیکن جیسے ہی وہ چراہ گاہ پر پہنچے تو اس کے بعد ہی نیچے موجود فوجی چیک پوسٹوں پر طالبان نے حملہ کر دیا۔‘
چراہ گاہ کے مالک نے بی بی سی کو بتایا کہ چراہ گاہوں میں موجود لوگوں نے وہ رات جنگل میں چھپ کر گزاری۔
’رات دو بجے شروع ہونے والی فائرنگ اور لڑائی دن ایک بجے کے بعد تک جاری رہی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب بھی بہت سے فوجی وہاں موجود ہیں اور ہم مقامی لوگوں نے فوج کے ساتھ ملکر اسلحہ اور سامان اوپر پہنچایا۔
’فوج کی جانب سے چیک پوسٹوں سے اوپر چراہ گاہوں میں جانے کی ابھی اجازت نہیں۔ فوج اور طالبان کی فائرنگ کے نتیجے میں ہماری بکریوں کو اور وہاں موجود مقامی افراد کو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن بکریاں ادھر سے ادھر ہو گئیں تو پھر فائرنگ تھمنے کے بعد ہمارے لوگ اپنی بکریوں کو سنبھالنے کے لیے اوپر گئے اور پھر واپس نیچے آ گئے۔‘
’پنجاب سے اضافی نفری منگوائی گئی‘
ایک حکومتی اہلکار نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ چترال میں شدت پسندوں کی افغان سرحد پر نقل و حرکت کے حوالے سے پانچ روز سے ہی الرٹ موجود تھا اور تین روز پہلے ہی پولیس اور سکیورٹی فورسز کی مزید نفری بھجوانے کی درخواست دے دی گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ اضافی نفری پنجاب سے بھی منگوائی گئی کیونکہ خیبرپختونخوا میں سابقہ قبائلی علاقوں میں پہلے کی سکیورٹی الرٹ ہے۔
فوج اور انتظامیہ کی جانب سے دیے جانے والے بیانات کے مطابق افغانستان کے صوبہ نورستان اور کنڑ میں شدت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں علم ہونے کے بعد یہ اطلاع بروقت افغان حکومت کو فراہم کی گئی تھی اور اسی وجہ سے فوجی چوکیاں بھی الرٹ تھیں۔
اگرچہ افغان طالبان کے حوالے سے بارہا یہ کہا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے تاہم چترال کی صورتحال پر ایک ذمہ دار انتظامی افسر نے بی بی سی سے گفتگو میں یہ سوال اٹھایا کہ سرحد کے اس پار طالبان موجود ہیں، جن میں سے درجنوں مختلف مقامات سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ تو اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت اور سکیورٹی اس سے یکسر لاعلم ہو؟
’سیاحوں کو کچھ مت کہنا، وہ خوفزدہ ہو جائیں گے‘
چترال اور بالخصوص کیلاش میں سکیورٹی کی ایک وجہ یہاں سال بھر سیاحوں کی بڑی تعداد کی آمد بھی ہے۔ یہاں کے لوگوں کا لباس، زبان، مذہب مجموعی طور پر پورا کلچر ہی ملک کے اندر اور باہر ہمیشہ سے ہی سیاحوں کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔
چھ ستمبر کو جب کیلاش سے فوجی دستے گزر کر سرحد پر جاری آپریشن کے لیے جا رہے تھے تو کچھ غیر ملکی سیاح تب بھی وہاں موجود تھے۔
وہاں موجود ایک پاکستانی سیاح نے بتایا کہ ’جب ہمیں ہوٹل واپس بھجوایا گیا تو ہوٹل کے مالک نے ہمیں کہا کہ سیاحوں کے سامنے کچھ مت کہنا کیونکہ ہم نے انھیں کچھ نہیں بتایا کہ اوپر آپریشن ہو رہا ہے۔ یہ خوفزدہ ہو جائیں گے۔‘
سکندر اس روز سیاحت پر آئے ایک گروپ کے ساتھ کیلاش میں ہی موجود تھے۔ چھ ستمبر کی صبح انھوں نے سات بجے اسلام اباد کے لیے روانہ ہونا تھا لیکن انھیں چند گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیوںکہ وادی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری اور اسلحے کو اوپر پہاڑوں پر بھجوایا جا رہا تھا۔
سکندر نے بی بی سی کو بتایا کہ بدھ کے روز لواری ٹنل تک صبح تقریباً نو سے سارھے نو بجے تک کسی گاڑی کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
وہ کہنے لگے کہ ’ہم ہوٹل سے سات بجے نکلے تو کیلاش میں ہی بنی ایک چوکی پر ہمیں روکا گیا اور کہا گیا کہ ابھی آپ واپس ہوٹل چلے جائیں۔‘
چترال میں موجود ایک سرکاری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ صورتحال اس وقت تو نارمل ہے تمام سکول کھلے ہیں کاروبار کھلے ہیں لیکن طالبان کی آمد اور فوج پر حملے کے بعد کیلاش کی آبادی اور یہاں چترال کے اندر موجود اسماعیلی برادری کے لیے بھی خطرہ ہے۔
سرکاری افسر کے ان خدشات کی تصدیق گرم چشمہ میں سکیورٹی اہلکار نے بھی کی، جن کا کہنا تھا کہ اگرچہ طالبان کا ان پہاڑوں سے گرم چشمہ میں اترنا اور پھر واپس بچ کر جانا اتنا آسان نہیں ہو گا لیکن ہمارے پہاڑ بھی نورستان سے ملتے ہیں اور حالیہ دنوں میں ہمیں بھی چرواہوں اور انٹیلیجنس ذرائع سے پتا چلا ہے کہ ان پہاڑوں میں طالبان سرحد پار کر کے آئے اور یہاں نقل و حرکت کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
Source